کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 321
سوال کی مناسبت سے فاتحہ خلف الامام کے چند خاص اور مختصر دلائل پیش خدمت ہیں۔
1۔حدیث انس رضی اللہ عنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقتدیوں کو فرمایا:
اور تم میں سے ہر شخص سورۃفاتحہ اپنے دل میں پڑھے۔(جزء القراءت للبخاری: 255وسندہ صحیح)
2۔حدیث رجل من اصحاب النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم (اس کا مفہوم بھی وہی ہے جو حدیث سابق کا ہے)جزء القراۃللبخاری (ح61ومسند احمد (4؍236،5؍60،81،410)
اسے بیہقی رحمہ اللہ وغیرہ نے صحیح کہا ہے۔(معرفۃ السنن والآثار 2؍54ح921والکواکب الدریہ ص48)
3۔حدیث نافع بن محمود عن عبادہ
اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہری نماز میں قراءت کرنے والے مقتدیوں کو فرمایا:
جب میں جہرکے ساتھ قراءت کر رہا ہوں تو تم میں سے کوئی شخص بھی سورۃ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھے ۔(سنن نسائی ج2ص141ح921)
بیہقی کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔
(کتاب القراءت للبیہقی ص64وقال :ھذا اسناد صحیح ورواتہ ثقات)
اسے دارقطنی نے حسن اور االضیاء المقدسی (8؍346،347ح421)نے صحیح قرار دیا ہے۔
اس کے راوی نافع بن محمود جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔
دیکھئے الکواکب (ص53،54)انھیں خواہ مخواہ مجہول کہہ کر اس صحیح حدیث کو رد کرنا، بعد از اتمام حجت ،انتہائی ناپسندیدہ حرکت ہے۔
4۔حدیث عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ۔ (جزء القراءت للبخاری ص17،18،رقم :263ونصرالباری ص112)
اس کی سند جمہور علماء کے نزدیک حجت ہے۔(مجموع الفتاوی ابن تیمیہ رحمہ اللہ ج18ص8،الترغیب والترہیب ج4ص 576)
5۔حدیث مکحول عن محمود بن الربیع عن عبادہ کتاب القراءت للبیہقی (ص 48،وفی نسخہ 64)
6۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جہری وسری نماز میں فاتحہ خلف الامام کا حکم دیتے تھے۔
(المستدرک للحاکم ج1ص239وصححہ الذہبی، السنن الکبری للبیہقی ج2ص167)