کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 320
مسئلہ سورۃ فاتحہ خلف الامام سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق سورۂ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی ۔ کیا امام کی اقتداء میں سورۃ فاتحہ ہر رکعت میں پڑھنی چاہیے یا تیسری اور چوتھی رکعت میں پڑھنی چاہیے ۔جبکہ امام صاحب سورۃ فاتحہ خاموشی سے پڑھتے ہیں۔ قرآن وسنت کی روشنی میں ذراتفصیل کے ساتھ جواب دیں تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔(ایک سائل) الجواب: سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی چاہے امام ہو یا منفرد و مقتدی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لاصَلاة لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ" اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے۔(صحیح بخاری :756وصحیح مسلم :394) اس حدیث کے راوی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فاتحہ خلف الامام کےقائل وفاعل تھے۔دیکھئے کتاب القراءت للبیہقی (ص59ح133،واسنادہ صحیح ) شارحین حدیث نے بھی اس حدیث سے وجوب (یعنی فرضیت )فاتحہ خلف الامام پر استدلال کیا ہے ،مثلاً اعلام الحدیث فی شرح صحیح بخاری للخطابی (1؍500) علامہ محمود العینی الحنفی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں۔ "استدل بهذا الحديث عبد اللّٰه بن المبارك والأوزاعي ومالك والشافعي وأحمد وإسحاق وأبو ثور وداود على وجوب قراءة الفاتحة خلف الامام في جميع الصلوات" عبد اللہ بن مبارک ،اوزاعی ، مالک (ایک قول میں)شافعی و احمد ، اسحاق ، ابو ثور اور داؤد (ظاہری)نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ تمام نمازوں میں فاتحہ خلف الامام واجب (فرض)ہے۔(عمدۃ القاری ج6ص10) اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کے لیے امام عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ کی کتاب تحقیق الکلام کا مطالعہ کریں۔ نیز راقم الحروف کی مختصر کتاب’’الکواکب الدریہ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام فی الجہریہ‘‘بھی اس مسئلے پر چھپ چکی ہے۔