کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 32
ابن المبارک کی طرف منسوب جرح عبداللہ بن محمد بن سعدویہ اور احمد بن عبداللہ بن بشیر المروزی کی وجہ سے ثابت نہیں ہے۔دیکھئے کتاب الضعفاء للعقیلی(ج1 ص152،153) امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ﴿ هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ﴾ کی تشریح میں فرمایا: علمهیعنی اس کا علم ہے۔(شرح حدیث النزول ص 127،نقلہ عن کتاب السنۃ لحنبل بن اسحاق) سلف صالحین میں سے ان کاکوئی مخالف نہیں ہے، حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا: "وقـد ثبت عن السلف أنهم قالوا : هو معهم بعلمه. وقد ذكر ابن عبد البر وغيره أن هذا إجماع من الصحابة والتابعين لهم بإحسان ، ولم يخالفهم فيه أحد يعتمد بقوله" اور سلف سے ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا:وہ(اللہ) بلحاظِ علم ان کے ساتھ ہے اور ابن عبدالبر وغیرہ نے اس پر صحابہ و تابعین رحمہ اللہ کا ا جماع نقل کیا ہے،اور اس سلسلے میں کسی قابل اعتمادشخص نے ان کی مخالفت نہیں کی۔(شرح حدیث النزول ص 126) یہ ظاہر ہے کہ اجماع شرعی حجت ہے۔ تفصیل کے لیے امام شافعی رحمہ اللہ کی کتاب الرسالۃ اور حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کی الاحکام دیکھیں۔ حافظ عبداللہ محدث غازی پوری(1260ھ۔1337ھ) نے فرمایا:’’واضح رہے کہ ہمارے مذہب کا اصل الاصول صرف اتباع کتاب وسنت ہے۔‘‘(ابراء اہل حدیث والقرآن ص 32) اس پر حافظ صاحب نے خود ہی بطور حاشیہ لکھا ہے کہ’’اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اہل حدیث کو اجماع وقیاس شرعی سے انکار ہے کیونکہ جب یہ دونوں کتاب وسنت سے ثابت ہیں تو کتاب وسنت کے ماننے میں ان کا ماننا آگیا۔۔۔الخ‘‘(ایضاً ص 32)(نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو:1ص4) یاد رہے کہ "مَعَكُمْ" کامعنی "علمه وقدرته" کرنا تاویل نہیں بلکہ اس کے لغوی معنوں میں سے ایک ہے جیسےکہاجاتاہے: "اذهب أنا معك" جاؤمیں تمہارے ساتھ ہوں۔ جو لوگ"مَعَكُمْ" کو علم وقدرت کے علاوہ کوئی علیحدہ صفت سمجھ بیٹھے ہیں ان کا قول اجماع صحابہ وتابعین ومن بعدھم کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔(شہادت ،فروری 2003ء)