کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 319
جو شخص بسم اللہ بالجہر پر اعتراض کرے گا ۔اس کا اعتراض بلا واسطہ امام شافعی رحمہ اللہ پر وارد ہو گا۔ عقائد ،اعمال وغیرہ کے بارے میں اہل حدیث پر جو بھی اعتراض کیا جاتا ہے اس کا ہدف احادیث صحیحہ آثار صحابہ ،آثار تابعین اور ائمہ اسلام ضرور بنتے ہیں۔ یہاں بطور فائدہ عرض ہے کہ متعدد علماء حق نے بسم اللہ بالجہر پر کتابیں اور رسالے لکھے ہیں، مثلاً شیخ الاسلام امام علی بن عمرالدارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ۔ تنبیہ:زیلعی نے شیخ الاسلام امام دارقطنی رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ بعض مالکیوں کے قسم دینے پر انھوں نے کہا کہ بسم اللہ بالجہر کے بارے میں میں کوئی مرفوع حدیث صحیح نہیں ہے۔ (نصب الرایہ ج1ص358،359،التحقیق مع التنقیح ج1ص313) لیکن یہ قصہ مردود ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ سے ثابت ہی نہیں ہے کیونکہ اسے روایت کرنے والے مجہول ہیں۔‘‘ وقد حكي لنا مشائخنا" (اور ہمیں ہمارے مشائخ نے بتایا ہے)اور نہ ان مجہول مشائخ کی امام دارقطنی سے ملاقات ثابت ہے۔اس قسم کی ضعیف ومردود حکایات کے’’زور‘‘پر زیلعی صاحب بسم اللہ بالجہر کی مخالفت فرما رہے ہیں۔ انا للّٰه وانا الیہ راجعون۔ محمد تقی عثمانی دیوبندی فرماتے ہیں:’’حنفیہ میں سے اس موضوع پر سب سے مفصل کلام حافظ جمال الدین زیلعی رحمہ اللہ نے کیا ہے۔ انھوں نے"نصب الرایہ" میں اس مسئلہ پر تقریباً ساٹھ صفحات لکھے ہیں۔ اور اپنی عام عادت کے خلاف بڑے جوش وخروش کا مظاہرہ کیا ہے اس تمام ترنزاع کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ تسمیہ کے جہرواخفاء کے مسئلہ میں اختلاف جواز اور عدم جواز کا نہیں ہے بلکہ محض افضل ومفضول کااختلاف ہے۔‘‘ (درس ترمذی ج1ص499) مذکورہ بالا ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ بسم اللہ جہراً وسراً دونوں طرح پڑھنا صحیح اور جائز ہے۔(شہادت ،ستمبر2000ء)