کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 318
الکبری للبیہقی ج2ص48) اس کی سند بالکل صحیح ہے۔ دیکھئے راقم الحروف کی کتاب ہدیۃ المسلمین (حدیث:13) امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں جہر کے ساتھ بسم اللہ پڑھی۔ کسی صحابی سے ان کے عمل کا رد منقول نہیں ہے لہٰذا ثابت ہوا بسم اللہ بالجہر کے جواز پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا عہد فاروقی میں اجماع ہے۔ احادیث صحیحہ اور عموم قرآن سے ثابت ہے کہ اجماع شرعی حجت ہے اور امت مسلمہ گمراہی پر اکٹھی نہیں ہو سکتی ۔ دیکھئے امام شافعی رحمہ اللہ کی کتاب"الرسالۃ"اور دیگر کتب محدثین، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر پھر سورۃ فاتحہ پڑھی ،پھر آمین کہی اور آخر میں فرمایا: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، إِنِّي لَأَشْبَهُكُمْ صَلَاةً بِرَسُولِ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میری نماز تم سب سے زیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے مشابہ ہے۔ (سنن النسائی :906صححہ ابن خزیمہ ج1ص251ح499،وابن حبان الاحسان ج3ص143ح 794والحاکم1؍232والذہبی ) اس کی سند بالکل صحیح ہے۔ خالد کا سعید بن ابی ہلال سے سماع قبل از اختلاط ہے کیونکہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں خالد عن ابن ابی ہلال والی روایات موجود ہیں۔ دیکھئے راقم الحروف کا رسالۃ "القول المتین فی الجہر بالتامین"(ص25) زیلعی حنفی کا اپنے مسلک کی حمایت میں اسے شاذ کہنا صحیح نہیں ہے۔ اس صحیح اور مرفوع حدیث سے بسم اللہ بالجہر کا جواز ثابت ہوتا ہے جیسا کہ امام ابن خزیمہ اور امام ترمذی ،امام ابن حبان ، وغیرہما محدثین نے استدلال کیا ہے۔ بقول امام ترمذی :اس حدیث کے راوی سیدنا ابو ہریرہ اور سیدنا ابن عمر ، سیدنا ابن عباس ، ابن زبیر رضی اللہ عنہم، تابعین کرام رحمہم اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ (ان احادیث و دیگردلائل کی وجہ سے)بسم اللہ بالجہر کے قائل تھے۔ (دیکھئے سنن ترمذی الصلوٰۃ، باب من رای الجہرببسم اللہ الرحمٰن الرحیم ح245)