کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 317
اور شاگردوں میں عاصم الجحدری کا نام نہیں ملا۔ واللہ اعلم غالباً یہ دوسرا شخص ہے۔ بہر حال یہ سند ضعیف ہے التمہید لابن عبد البر(ج20ص78)میں اس روایت میں بحوالہ الاثرم، آخر میں"علی صدرہ"کے بجائے "تحت السرۃ "کا اضافہ ہے اور سند سے عاصم الجحدری کے بعد"عن ابیہ" کا واسطہ گر گیا ہے۔ التمہید (9ص217)سے معلوم ہوتا ہےکہ حافظ ابن عبد البر، الاثرم سے الخضر بن داؤد کی سند سے روایتیں بیان کرتے ہیں۔الخضر بن داؤد کے حالات نامعلوم ہیں اور باقی سند میں بھی نظر ہے، لہٰذا یہ سند بھی ضعیف ہے۔ یہ مختصر تحقیق جلدی میں لکھ دی ہے۔ اس مسئلے میں مفصل تحقیق لکھنے کا میرے پاس فی الحال وقت نہیں ہے۔ مسند احمد(ج5ص226ح 22313)میں قبیصہ بن ہلب والی قوی روایت سینے پر ہاتھ باندھنے کی زبردست دلیل ہے۔ صحیح بخاری (ح740) کی ذراع والی حدیث کا عموم بھی اس کا مؤید ہے۔ "على ظهر كفه اليسرى والرسغ" والی حدیث بھی اس کی دلیل ہے۔(دیکھئے ابو داؤد :727وسندہ صحیح) نیز اس موضوع پر میری کتاب’’نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام ‘‘ کا مطالعہ بھی مفید ہوگا۔(ان شاء اللہ)(شہادت جولائی 2002) بسم اللہ بالجہر کا مسئلہ سوال: نماز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بالجہر پڑھنے کی کیا دلیل ہے؟(ایک سائل) الجواب: سری نمازوں میں تو بسم اللہ آہستہ پڑھنے پر اتفاق ہے جبکہ جہری نماز میں سراً(آہستہ)بھی صحیح اور جائز ہے جیسا کہ صحیح مسلم (ح 399)وغیرہ سے ثابت ہے اور جہراً بھی جائز ہے لیکن سراً پڑھنا افضل ہے۔ عبد الرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "صليت خلف ابن عمر فجهر بسم اللّٰه الرحمن الرحيم" میں نے عمر( رضی اللہ عنہ )کے پیچھے نماز پڑھی آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم جہراً(اونچی آواز سے) پڑھی ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص412شرح معانی الآثار ج1ص137دوسرا نسخہ ج1ص200السنن