کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 316
3۔یہ روایت المحلیٰ میں بلا سند ہے لیکن الخلافیات للبیہقی (قلمی ص37)میں یہ روایت : "اخبرنا ابوالحسين بن الفضل ببغداد:انبا ابوعمرو بن السماك :حدثنا محمد ابن عبيداللّٰه بن المنادي :حدثنا ابوحذيفة:حدثنا سعيد بن زربي عن ثابت عن انس قال : من أخلاق النبوة: تعجيل الإفطار، وتأخير السّحور، ووضع يمينک على شمالک في الصلاة تحت السرة" کی سندو متن سے موجود ہے۔بیہقی نے سعید بن زربی کو اس مقام پر"ولیس بالقوی" کہا ہے جب کہ تقریب التہذیب میں"منکر الحدیث"لکھا ہوا ہے، لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔ 4۔یہ روایت سنداً صحیح ہے لیکن ابو مجلز تابعی کا قول ہے۔ ظاہر ہے کہ تابعی کا قول سنت صحیحہ کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جا سکتا ۔ عین ممکن ہے کہ ابو مجلز تک اس مسئلے میں سنت صحیحہ نہ پہنچی ہو اور انھوں نے یہ فتوی اپنے اجتہاد سے دیا ہو۔ 5۔مسند زید بن علی کا بنیادی راوی ابو خالد (عمرو بن خالد)الواسطی ہے۔(مسند زید ص50،51) یہ مشہور کذاب راوی تھا۔دیکھئے میزان الاعتدال (3؍257)وغیرہ ۔ کتاب مذکور( مسند زید )میں آپ کا حوالہ ص204 پر ہے۔ یہ ساری کتاب ہی موضوع ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت محلیٰ (ج4ص113مسئلہ 448) میں "تحت السرۃ "کے الفاظ کے بغیر اور بلا سند مذکور ہے، لہٰذا یہ استدلال بھی باطل ہے۔ "فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ" کی تشریح میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ "وضع يده اليمنى على وسط ساعده على صدره" یعنی انھوں نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی کلائی کے درمیان اپنے سینے پر رکھا۔(التاریخ الکبیر للبخاری ج6ص437والسنن الکبری للبیہقی ج2ص30) اس کے راوی (عاصم الجحدری)کے والد العجاج کے حالات نہیں ملے، لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔ بعض راویوں نے العجاج کو سند سے گرادیا ہے۔ ایک شخص عبد اللہ بن ردبۃ العجاج ہے جسے ابن حبان رحمہ اللہ نے کتاب الثقات (ج5ص287) میں ذکر کیا ہے۔ اس کے حالات تاریخ دمشق میں بھی ہیں۔ تاہم اس کے استادوں میں عقبہ بن ظبیان