کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 312
1۔امام سے پہلے یعنی سکتہ اولیٰ میں پڑھ لے۔
سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "إذا قرأ الإمام بأم القرآن فاقرأ بها واسبقه"
جب امام سورۃ فاتحہ پڑھے تو تم بھی پڑھو اور اس سے آگے نکل جاؤ۔
(جزء القراءت للبخاری ص73ح53وسندہ حسن نصرالباری 259،آثار السنن للنیموی ص223ح358وقال :اسنادہ حسن)
اسے نیموی تقلیدی نے بھی حسن کہا ہے۔
2۔سکتہ ثانیہ (بعد از قراءت علی الراجح یا بعد از فاتحہ پڑھے۔)
3۔سکتات قراءت میں پڑھے۔
4۔امام اگر سکتہ یا سکتات نہ کرے تو اس کے ساتھ ہی پڑھ لیں۔ دیکھئے میری کتاب ’’الکواکب الدریہ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام فی الصلوٰۃ الجہریہ‘‘
یہ چاروں طریقے صحیح ہیں مگر ثانی الذکر اور ثالث الذکر (3،2)سب سے راجح ہیں۔
رشید احمد گنگوہی دیوبندی صاحب فرماتے ہیں:
’’اگر سکتات میں پڑھا جاوے تو مضائقہ نہیں۔‘‘ (سبیل الرشاد وتالیفات رشید یہ ص511)
نیز فرماتے ہیں :’’ پس جب اس کو اس قدر خصوصیت بالصلوٰۃ ہے تو اگر سکتات میں اس کو پڑھ لو تو رخصت ہے اور یہ قدر قلیل آیات محل ثنا میں ختم بھی ہو سکتی ہیں اور خلط قرآن امام کی نوبت نہیں آتی۔‘‘ (ایضاً) (شہادت مارچ 2000ء)
سوال: مسعود احمد صاحب لکھتے ہیں:’’ اس کے برعکس تقریباً تمام مساجد میں سکتات برائے نام ہوتے ہیں الاماشاء اللہ‘‘اس کی کیا حقیقت ہے؟ (عبد الستار سومرو کراچی)
الجواب: ہم ثابت شدہ سکتات کے قائل وفاعل ہیں اور مساجد میں ان کے اہتمام کے لیے حتی الوسع کوشاں بھی ہیں۔ واضح رہے کہ اس کتاب کا مصنف مسعود احمد بی ایس سی خارجی تکفیری تھا ۔راقم الحروف کا اسلام آباد میں اس کے بیٹے کے گھر میں ایک مذاکرہ بھی ہوا تھا۔ جس میں بحمداللہ مسعود صاحب لاجواب ہوئے اور بات کرنے سے انکار کر دیا۔ جس