کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 310
مختصر یہ کہ اصول محدثین واصول اہل الرائے دونوں کی روسے اس حدیث سے فاتحہ خلف الامام کے خلاف استدلال مردود ہے۔ (شہادت فروری 2000ء) سوال: عبد اللہ بن عثمان بن خثیم رحمہ اللہ نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ تابعی سے پوچھا:کیا میں امام کے پیچھے قراءت کروں؟سعید رحمہ اللہ نے فرمایا: ہاں اگرچہ تم اس کی قراءت سنو۔ بیشک ان لوگوں نے بدعت نکال لی ہے(کہ سکتہ نہیں کرتے ) سلف یہ کام نہیں کرتے تھے۔ بیشک سلف (یعنی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم )میں سے جب کوئی لوگوں کی امامت کرتا تھا تو اللہ اکبر کہہ کر خاموش ہو جاتا ۔ یہاں تک کہ جب اسے یقین ہو جاتا کہ اب ہرمقتدی نے سورۂ فاتحہ پڑھ لی ہو گی تو پھر وہ قراءت شروع کرتا تھا ، پھر مقتدی خاموش ہو جایا کرتے تھے۔(عبد الستار سومرو ،کراچی) الجواب: اس کی سند حسن ہے۔ دیکھئے جزء القراءت للبخاری مع نصر الباری (83۔84)اور مصنف عبد الرزاق (2؍134)(شہادت مارچ 2000ء) سوال: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب امام خاموش ہو تو تم پڑھا کرو اور جب وہ پڑھے تو تم خاموش ہو جایا کرو۔(عبد الستار سومرو، کراچی) الجواب: اس کی سند سخت ضعیف بلکہ موضوع ہے۔ دیکھئے کتاب القراءت للبیہقی (79،80) اس کی سند میں اسحاق بن عبداللہ بن ابی فروہ کذاب و متروک ہے، لہٰذا ایسی موضوع ومن گھڑت روایتیں بیان کرنا جائز نہیں ہے۔(شہادت مارچ 2000ء) سوال: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: امام کے دو سکتے ہوتے ہیں۔ان دونوں میں سورۃ فاتحہ کی قراءت لوٹ لو۔ اس کی سند کیسی ہے؟(عبد الستار سومرو کراچی) الجواب: اس کی سند حسن ہے۔ جیسا کہ میں نے جزء القراءت للبخاری (274) کی تحقیق میں واضح کر دیا ہے۔ والحمدللہ۔(شہادت مارچ 2000ء) سوال: امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہم کہتے ہیں کہ(مقتدی )امام کے سکتوں میں پڑھے۔(جزء القراءۃ:32)