کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 31
اللہ کی معیت وقربت سے کیا مراد ہے؟ سوال: اہل حدیث اللہ کو عرش پر مانتے ہیں اور "مَعَكُمْ" اور" إِنِّي قَرِيبٌ" سے متعلق کہتے ہیں کہ’’معیت وقربت‘‘ سے مراد اللہ کاعلم، قدرت، سماعت وبصارت ہے کیا یہ تاویل نہیں ہے؟ بعض سعودی علماء مثلاً شیخ(محمد بن) صالح العثیمین رحمہ اللہ وغیرہ اور بعض پاکستانی سلفی علماء کہتے ہیں کہ ہم"استوی" کو بلاکیف مانتے ہیں اسی طرح’’معیت وقربت‘‘ کو بھی بلاکیف مانتے ہیں جس طرح اللہ کی شان کے لائق ہے وہ مستوی ہے اور جس طرح اس کی شان کے لائق ہے وہ ساتھ بھی ہے قریب بھی ہے۔ہم کوئی تاویل نہیں کرتے۔اللہ کی صفات والی آیات متشا بہہ ہیں ہم ان میں سے کوئی غور و فکر وتاویل نہیں کرتے جس طرح اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے ویسے ہی اس کی صفات ہیں۔محترم! دلائل کے ساتھ وضاحت فرمائیں۔ (سلیم اختر،کراچی) الجواب: مقاتل بن حیان(النبطی المفسر) نے وَهُوَ مَعَهُمْ کی تشریح میں فرمایا: "علمه"اس کا علم ہے۔(الاسماء والصفات للبیہقی ص431 وفی نسخہ ص 542 وسندہ حسن) ضحاک بن مزاحم المفسر نے فرمایا: "وعلمه مَعَهُمْ" اور اس کا علم ان کے ساتھ ہے۔ (السنۃ لعبد اللہ بن احمد:۵۹۲ وسندہ حسن واخطأ القحطانی فقال:فی اسنادہ لین! ) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (مفسر قرآن) سے مروی ہے: "هو علي العرش ، وعلمه معهم" ’’وہ عرش پر ہے اور اس کا علم ان کے ساتھ ہے۔‘‘(تفسیر ابن ابی حاتم بحوالہ شرح حدیث النزول لابن تیمیہ ص 126) ان روایات کے راوی بکیر بن معروف(مفسر) حسن الحدیث تھے۔امام نسائی رحمہ اللہ اور جمہور محدثین نے ان کی توثیق کی ہے، ان پر احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی طرف منسوب جرح تہذیب الکمال للمزی میں بے سند ہونے کی وجہ سے ثابت نہیں ہے،جبکہ خودامام احمد سے ان کی توثیق ثابت ہے۔(دیکھئے معرفۃ العلل والرجال:2503)