کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 309
2۔ابن لہیعہ اختلاط کا شکار ہو گئے تھے، اس کی دوسری سندیں بھی ضعیف ہیں، لہذا یہ روایت اپنے تمام شواہد کے ساتھ ضعیف ہی ہے۔(شہادت مارچ 2000ء) سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام پڑھے تو خاموش رہو۔(صحیح مسلم ج1ص73ح404؍63)(عبد الستار سومرو کراچی) الجواب: اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی شیخ الاسلام ،محبوب المومنین ،المحدث الفقیہ المجاہد ،صحابی رسول سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ (صحیح مسلم:404وابن ابی داؤد 604وسنن نسائی:922،923بتحقیقی وھو حدیث صحیح) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے عبد الرحمٰن بن یعقوب رحمہ اللہ نے پوچھا:میں امام کی قراءت سن رہا ہوں تو انھوں نے فرمایا:اسے (سورۃ فاتحہ کو)اپنے دل میں(یعنی سراً )پڑھ۔ دیکھئے مسند الحمیدی (بتحقیقی :980،ونسخہ دیوبندیہ:974 ونسخہ بتحقیق حسین سلیم اسد ج2ص 198ح1004)اور مسند ابی عوانہ(ج2ص128وسندہ صحیح ، نسخہ جدیدہ1؍357،) معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سری اور جہری نمازوں میں فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے۔ لہٰذا ان کی بیان کردہ حدیث کے دوہی مفہوم ہو سکتے ہیں: 1۔یہ ماعداالفاتحہ پر محمول ہے ،یعنی (جہری نماز میں)قراءت امام کی صورت میں فاتحہ پڑھی جائے گی اور اس کے علاوہ باقی قرآن نہیں پڑھا جائے گا۔یہی تحقیق امیرالمومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کی ہے۔ دیکھئے جزء القراءت (ص63ح264) 2۔ یہ حدیث منسوخ ہے۔ آل تقلید کا یہ اصول بہت مشہور ہے کہ اگر راوی اپنی روایت کے خلاف عمل کرے یا فتوی دے تو اس کی روایت منسوخ ہو گی۔ مثلاً دیکھئے محمد منصور علی تقلیدی کی کتاب فتح المبین (ص63۔64) اصول محدثین کی روسے شق اول راجح ہے جبکہ اہل الرائے کے اصول سے شق ثانی،