کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 307
محمد ادریس کاندہلوی دیوبندی لکھتے ہیں: ’’جب کسی راوی میں توثیق اور تضعیف جمع ہو جائیں تو محدثین کے نزدیک اکثر کے قول کااعتبار ہے اور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ جب کسی راوی میں جرح وتعدیل جمع ہو جائیں تو جرح مبہم کے مقابلہ میں تعدیل کو ترجیح ہوگی اگرچہ جارحین کا عدد معدلین کے عدد سے زیادہ ہوااور احتیاط بھی قبول ہی کرنے میں ہے۔۔۔‘‘(سیرت المصطفیٰ ج1ص79) اس میں (دیوبندی ) فقہاء کے مقابلے میں محدثین کا قول ہی راجح ہے۔ سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں:’’ بایں ہمہ ہم نے توثیق وتضعیف میں جمہور ائمہ جرح وتعدیل اور اکثر ائمہ حدیث کا ساتھ اور دامن نہیں چھوڑا۔‘‘ (احسن الکلام ج1ص40) تنبیہ: محدث اگر کسی روایت کی تصحیح یا تحسین کرے(یعنی صحیح یا حسن کہے) تو یہ اس محدث کے نزدیک اس روایت کے راویوں کی توثیق ہوتی ہے۔ حافظ ذہبی فرماتے ہیں: "وصحح حديثه ابن المنذر، وابن حزم، وغيرهما، فذلك توثيق له واللّٰه اعلم " ’’اس کی حدیث کو ابن المنذر اور ابن حزم نے صحیح کہا اور یہ اس (راوی) کی توثیق ہے۔ واللہ اعلم(میزان الاعتدال 4؍558ت10478) ابن القطان الفاسی نے کہا:"وفي تصحيح الترمذي إياه توثيق لزینب وسعد بن إسحاق" اور ترمذی کے اس حدیث کو صحیح کہنے میں زینب اور سعد بن اسحاق کی توثیق ہے۔ (بیان الوہم والا یہام الواقعین فی کتاب الاحکام 5؍395ح2562،نصب الرایۃ 3؍263) یہی موقف صاحب الامام (نصب الرایۃ 1؍149) اور شیخ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ کا ہے۔(السلسلۃ الصحیحۃ 6 ؍660 ح2783،7؍16،ح 3007)نیز دیکھئے الاقتراح لا بن دقیق العید (ص 325۔328)اور توجیہ القاری للشیخ ثناء اللہ الزاہدی (ص63) تنبیہ:ان جوابات میں بعض مقامات پر ضروری اصلاح اور اضافہ بھی کیا گیا ہے تاکہ قارئین کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ معلومات پیش کردی جائیں۔ والحمدللہ (الحدیث:14) سوال: سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو