کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 301
تنبیہ:اس روایت کی سند عبد الرزاق (مدلس ) کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اسماء الرجال اور حدیث کی تصحیح و تضعیف میں ہمیشہ جمہور محدثین کو ترجیح ہوتی ہے الا یہ کہ جرح مفسر ہو،جبکہ فقہی مسائل وغیرہا میں دلیل صریح کے مقابلے میں جمہور کا قول مرجوح ہوتا ہے۔والْحَق أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ صف کے پیچھے اکیلے نمازی کی نماز نہ ہونے والا قول راجح ہے اگرچہ اس کے قائلین جمہور کے مقابلے میں کم ہیں۔ 10۔صف سے پیچھے آدمی کھینچنے کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑے ہو گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پکڑ کر دائیں طرف کھڑا کردیا۔پھر جبار بن صخر رضی اللہ عنہ آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف کھڑے ہو گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر بن عبد اللہ اور جبار بن صخر رضی اللہ عنہ دونوں کو دھکیل کر پیچھے کھڑا کردیا ۔ دیکھئے صحیح مسلم(3010،ترقیم دارالسلام :7516،باب حدیث جابر الطویل وقصۃ ابی الیسر) اب چند اہم تنبیہات پیش خدمت ہیں: 1۔عورت اگر اکیلی بھی ہو تو اس کی نماز ہو جاتی ہے وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہے۔ 2۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ"وسطو الامام "امام کو درمیان رکھو۔‘‘ (سنن ابی داود:681) یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے، اس میں امۃ الواحد:مجہولہ ہے۔(تقریب التہذیب:8534) نیز دیکھئے انوار الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفۃ ص20(ابو داود : 681) 3۔صف کے پیچھے اکیلے نمازی کے بارے میں علماء کے تین اقوال ہیں: 1۔نماز نہیں ہوتی۔(2)نماز ہو جاتی ہے۔(3)عذر ہو مثلاً: (اگلی صف بھری ہوئی ہو)تو نماز ہو جاتی ہے۔ ان اقوال میں پہلا قول ہی راجح ہے، جبکہ محترم مبشر احمد ربانی