کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 30
امام مقری محقق محدث اثری ابو عمر احمد بن محمد بن عبداللہ الاندلسی رحمہ اللہ (متوفی 429ھ) فرماتے ہیں:
اہل سنت مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ:
﴿وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ﴾ (الحدید:4) وغیرہ آیات کا مطلب یہ ہے کہ:
"أن ذلك علمه ، وأن اللّٰه تعالى فوق السموات بذاتـه، مستوٍ على عرشه كيف شاء"
’’بےشک ا س سے اللہ کا علم مراد ہے، اللہ اپنی ذات کے لحاظ سے آسمانوں پر، عرش پر مستوی ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔‘‘(شرح حدیث النزول لابن تیمیہ ص 144،145)
اس اجماع سے معلوم ہوا کہ بعض الناس کا اس آیت کریمہ سے یہ مسئلہ تراشنا کہ’’اللہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے۔‘‘ غلط اور باطل ہے لہذا کتاب وسنت اور اجماع کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
مسئولہ آیت کریمہ میں" يَعلَمُ " کالفظ بھی بالکل واضح اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں معیت سے علم وقدرت مراد ہے۔تفصیل کے لیے دیکھئے ہمارے استاذ محترم شیخ بدیع الدین الراشدی رحمہ اللہ کی کتاب’’توحید خالص‘‘(ص277) حارث بن اسد المحاسبی رحمہ اللہ (متوفی 243ھ) فرماتے ہیں:" وكذلك لا يجوز.....الخ" اور اسی طرح یہ کہناجائز نہیں ہے کہ۔۔۔اللہ زمین پر ہے۔(فہم القرآن ومعانیہ، القسم الرابع، باب ما لا یجوز فیہ النسخ)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’(جہمیہ کے فرقے) ملتزمہ نے باری تعالیٰ کو ہرجگہ(موجود) قرار دیاہے۔‘‘(تلبیس ابلیس ص30،راقم الحروف کی کتاب: بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم ص 19)
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اور یوں کہنا جائز نہیں کہ وہ(اللہ) ہرمکان میں ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ آسمان میں عرش پر ہے۔‘‘(غنیۃ الطالبین ج1ص 100) نیزد یکھئے الحدیث :10ص43،46۔ (الحدیث :24)