کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 292
بھن فی المکتوبۃ والتطوع " عورت جب عورتوں کی امامت کرائے گی تو وہ آگے کھڑی نہیں ہوگی بلکہ ان کے برابر (صف میں ہی)کھڑی ہو کر فرض و نفل پڑھائے گی۔
(مصنف عبدالرزاق 3؍140ح 5080اس روایت کی سند عبد الرزا ق کی تدلیس (عن) کی وجہ سے ضعیف ہے۔)
معمر بن راشد نے کہا:" تَؤُمُّ المراۃ النِّسَاءَ في رمضان، و تَقُومُ مَعَهُنَّ فِي صَفِّهِنَّ "
عورت عورتوں کو رمضان میں نماز پڑھائے اور وہ ن کے ساتھ صف میں کھڑی ہو۔
(مصنف عبدالرزاق 3؍140ح 5080اس روایت کی سند عبد الرزا ق کی تدلیس (عن) کی وجہ سے ضعیف ہے۔)
اس پر سلف صالحین کا اجماع ہے کہ عورت جب عورتوں کو نماز پڑھائے گی تو صف سے آگے نہیں بلکہ صف میں ہی ان کے ساتھ برابر کھڑی ہو کر نماز پڑھائے گی۔
مجھے ایسا ایک حوالہ بھی باسند نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہو کہ سلف صالحین کے سنہری دور میں کسی عورت نے مردوں کو نماز پڑھائی ہو یا کوئی مستند عالم اس کے جواز کا قائل ہو۔
(اسی طرح کسی روایت میں اُم ورقہ رضی اللہ عنہ کے مؤذن کا ان کے پیچھے نماز پڑھنا بھی قطعاً ثابت نہیں۔)
ابن رشد(متوفی 515ھ)وغیرہ بعض متاخرین نے بغیر کسی سندوثبوت کے یہ لکھا ہےکہ ابو ثور(ابراہیم بن خالد متوفی 240ھ)اور محمد بن جریر )الطبری (متوفی 310 ھ)اس بات کے قائل ہیں کہ عورت مردوں کو نماز پڑھا سکتی ہے۔
(دیکھئے بدایۃ المجتہد ج1ص145،المغنی فی فقہ الامام احمد 2؍15مسئلہ : 1140)
چونکہ یہ حوالے بے سند ہیں ،لہٰذا مردود ہیں۔
خلاصۃ التحقیق: عورت کا نماز میں عورتوں کی امامت کرانا جائز ہے مگر وہ مردوں کی امام نہیں بن سکتی۔وما علینا الا البلاغ (3ربیع الاول 1426ھ) (الحدیث :15)