کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 291
ہے۔عبد الحئ لکھنوی نے اس عینی کے بارے میں لکھا: "ولولم يكن فيه رائحة التعصب المذهبي لكان أجود وأجود" اگر اس(عینی)میں مذہبی (یعنی حنفی) تعصب کی بدبونہ ہوتی تو بہت ہی اچھا ہوتا۔ (الفوائدالبہیہ ص208) تنبیہ:امام دارقطنی رحمہ اللہ تدلیس کے الزام سے بری ہیں۔ دیکھئے میری کتاب الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین (19؍1) حب حدیث نے بذات خود حدیث کا مفہوم متعین کر دیا ہے اور محدثین کرام بھی اس حدیث سے عورت کا عورتوں کی امامت کرانا ہی سمجھ رہے ہیں تو پھر لغت کی مدد اور الفاظ کے ہیر پھیر سے عورتوں کو مردوں کا امام بنا دینا کس عدالت کا انصاف ہے؟ ابن قدامہ لکھتے ہیں: "وهذه زيادة يجب قبولها" اور اس زیادت (نساءھا )کا قبول کرنا واجب ہے۔(المغنی 2؍16م1140) یہاں یہ بھی یاد رہے کہ آثار سلف صالحین سے صرف عورت کا عورتوں کی امامت کرانا ہی ثابت ہوتا ہے۔ عورت کا مردوں کی امامت کرانا کسی اثر سے ثابت نہیں ہے۔ ریطہ الحنفیہ (قال العجلی : کو فیۃ تابعیۃ ثقہ) سے روایت ہے: "أَمَّتْنَا عَائِشَةُ فَقَامَتْ بَيْنَهُنَّ فِي الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ" ہمیں عائشہ( رضی اللہ عنہا ) نے فرض نماز پڑھائی تو آپ عورتوں کے درمیان کھڑی ہو ئی تھیں۔ (سنن دارقطنی 1؍404ح1429وسندہ حسن وقال النیموی فی آثار السنن 514"واسنادہ صحیح"وانظرکتابی انوارالسنن فی تحقیق آثار السنن، ق103) امام شعبی رحمہ اللہ (مشہور تابعی )نے فرمایا: "تَؤُمُّ المراۃ النِّسَاءَ فی صلوۃ رمضان ، تَقُومُ مَعَهُنَّ فِي صَفِّهِنَّ" ’’عورت عورتوں کو رمضان کی نماز پڑھائے (تو ) وہ ان کے ساتھ صف میں کھڑی ہو جائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2؍89ح4955وسندہ صحیح عنعنۃہشیم عن حصین محمولۃ علی السماع انظرشرح علل الترمذی لا بن رجب2؍562والفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین لراقم الحروف 111؍3) ابن جریج نے کہا: " تَؤُمُّ المراۃ النِّسَاءَ من غیر ان تخرج امامھن ولکن تحاذی