کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 290
دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ (اشراق17؍5مئی 2005ءص38، 39) حالانکہ آپ نے ابھی پڑھ لیا ہے کہ یہ حدیث کے الفاظ ہیں، دارقطنی کے اپنے الفاظ نہیں ہیں بلکہ راویوں کی بیان کردہ روایت کے الفاظ ہیں۔ انہیں امام دارقطنی رحمہ اللہ کی ’’اپنی رائے ‘‘ کہنا غلط ہے۔ جن لوگوں کو روایت اور رائے میں فرق معلوم نہیں ہے وہ کیوں مضامین لکھ کر اُمت مسلمہ میں اختلاف وانتشار پھیلانا چاہتے ہیں؟ رہا یہ مسئلہ کہ یہ الفاظ سنن دارقطنی کے علاوہ حدیث کی کسی کتاب میں نہیں ہیں تو عرض ہے کہ امام دارقطنی ثقہ و قابل اعتماد امام تھے۔ شیخ الاسلام ابو الطیب طاہر بن عبد اللہ الطبری (متوفی 450ھ) نے کہا: "كان الدارقطني أمير المؤمنين في الحديث۔۔۔۔ " حدیث میں دارقطنی اہل ایمان کے امیرتھے ۔(تاریخ بغداد 12؍36ھ6404) خطیب بغدادی رحمہ اللہ (متوفی 363ھ)نے کہا: "وكان فريد عصره، وقريع دهره، ونسيجٌ وحده، وإمام وقته، انتهى إليه علم الأثر والمعرفة بعلل الحديث، وأسماء الرِّجال، وأحوال الرُّواة، مع الصِّدق والأمانة، والفقه(وفی تاریخ دمشق عن الخطیب قال:والثقۃ والعدالة،46/ 47 ) وقبول الشّهادة، وصحّة الاعتقاد، وسلامة المذهب، ۔۔۔۔۔۔۔۔". وہ یکتا ئے روزگار، اپنے زمانے کے سردار ،علم و ہنر میں یگانہ اور اپنے زمانے کے امام تھے۔علم حدیث ،عمل کی معرفت ، اسماء رجال اور راویوں کے حالات معلوم کرنا ان پر ختم تھا ،وہ سچائی ،امانت ، فقہ عدالت(اور ثقاہت)،قبول شہادت ،صحت اعتقاد اور سلامت مذہب کے ساتھ موصوف تھے۔ (تاریخ بغداد ۱۲/۳۴ت۶۴۰۴) حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا:" الإمام الحافظ المجود شيخ الإسلام علم الجهابذة" (سیراعلام النبلاء16؍449) اس جلیل القدر امام پر متاخر حنفی فقیہ محمد بن احمد العینی (متوفی 855ح) کی جرح مردود