کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 289
"حدثنا احمد بن العباس البغوي:حدثنا عمر بن شبه:(حدثنا)ابوا حمد الزبیری : نا الوليد بن جميع عن أمه عن أم ورقة: أن رسول اللّٰه -صلى اللّٰه عليه وسلم- أذِن لها أن يؤذن لها ويقام وتؤم نساءها" ’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم ورقہ( رضی اللہ عنہا )کو اس کی اجازت دی تھی کی ان کے لیے اذان اور اقامت کہی جائے اور وہ اپنی (گھر محلے کی)عورتوں کی(نماز میں)امامت کریں۔‘‘ (سنن دارقطنی ج1ص279ح1071وسندہ حسن وعنہ ابن الجوزی فی التحقیق مع التنقیح 1؍253ح 424وضعفہ، دوسرا نسخہ1/ 313ح387،اتحاف المہرۃ لابن حجر18/ 323) اس روایت کی سند حسن ہے اور اس پر علامہ ابن الجوزی کی جرح غلط ہے۔ ابو احمدمحمد بن عبد اللہ بن الزبیر الزبیری کتب ستہ کے راوی اور جمہور کے نزدیک ثقہ تھے،لہٰذا وہ صحیح الحدیث ہیں۔ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے کہا:ثقہ ابو زرعہ رحمہ اللہ نے کہا: صدوق ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے کہا: "حافظ للحديث عابد مجتهد له اوهام" حدیث کے حافظ، محنتی عبادت گزار،آپ کو اوہام ہوئے۔(الجرح والتعدیل 7؍297) عمر بن شبہ:صدوق لہ تصانیف (تقریب التہذیب :4918)بلکہ ثقہ ہیں۔(تحریر تقریب التہذیب 3؍79) حافظ ذہبی نے کہا:ثقہ (لکاشف2؍272) احمد بن العباس البغوی:ثقہ تھے۔(تاریخ بغداد 4؍329ت2144) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ سند حسن لذاتہ ہے۔ اس صحیح روایت نے اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیا کہ "أَهْلَ دَارِهَا"سے مراد اُم ورقہ رضی اللہ عنہا کے گھر،محلے اور قبیلے کی عورتیں ہیں۔ مرد مراد نہیں ہیں۔ (تنبیہ:اس سے معلوم ہوا کہ اُ م ورقہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے ان کا مؤذن نماز نہیں پڑھتا تھا۔) یہاں یہ بات حیرت انگیز ہے کہ کوئی پرو فیسر خورشید عالم نامی(؟) لکھتے ہیں: ’’یہ دارقطنی کے اپنے الفاظ ہیں حدیث کے الفاظ نہیں، یہ ان کی اپنی رائے ہے۔سنن دارقطنی کے علاوہ حدیث کی کسی کتاب میں یہ اضافہ نہیں ،اس لیے اس اضافے کو بطور