کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 288
یہ صحیح مسلم وغیرہ کے راوی اور جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق تھے، لہٰذا اس پر جرح مردود ہے۔
ولید کے استاد عبد الرحمٰن بن خلاد :ابن حبان ، ابن خزیمہ اور ابن الجارود کے نزدیک ثقہ و صحیح الحدیث تھے ،لہٰذا ان پر "حالہ مجہول" والی جرح مردود ہے۔
لیلیٰ بنت مالک (ولید بن جمیع کی والدہ ) کی توثیق ابن خزیمہ اور ابن الجارود نے اس کی حدیث کی تصحیح کر کے، کر دی ہے، لہٰذا ان کی حدیث بھی حسن کے درجہ سے نہیں گرتی۔
اس حدیث کا مفہوم کیا ہے؟ اس کے لیے دواہم باتیں مد نظر رکھیں :
اول:حدیث حدیث کی شرح وتفسیر بیان کرتی ہے، اس کے لیے حدیث کی تمام سندوں اورمتون کو جمع کر کے مفہوم سمجھا جاتا ہے۔
دوم:سلف صالحین(محدثین کرام ،راویان حدیث)نے حدیث کی جو تفسیر اور مفہوم بیان کیا ہوتا ہے اسے ہمیشہ مد نظر رکھا جاتا ہے۔بشرطیکہ سلف کے مابین اس مفہوم پر اختلاف نہ ہو ۔
اُم ورقہ رضی اللہ عنہا والی حدیث پر امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (متوفی 311ھ)نے درج ذیل باب باندھا ہے:
"باب إمامة المرأة النساء في الفريضة"
’’فرض نماز میں عورت کا عورتوں کی امامت کرنے کاباب‘‘(صحیح ابن خزیمہ رحمہ اللہ 3؍89ح1676)
امام ابو بکر بن المنذر النیسابوری رحمہ اللہ (متوفی 318ح ) فرماتے ہیں:
"ذکرامامة المرأة النساء فى الصلوات المكتوبة"
’’فرض نمازوں میں عورت کا عورتوں کی امامت کرنے کا ذکر‘‘
(الاوسط فی السنن والا جماع والا ختلاف ج4ص226)
ان دونوں محدثین کرام کی تبویب سے معلوم ہوا کہ اس حدیث میں"أَهْلَ دَارِهَا" سے مراد عورتیں ہیں مرد نہیں ہیں، محدثین کرام میں اس تبویب پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔
امام ابو الحسن الدارقطنی رحمہ اللہ (متوفی 385ھ) فرماتے ہیں: