کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 287
نماز پڑھا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد الرحمٰن بن عوف کے پیچھے نماز پڑھی اور اپنی فوت شدہ رکعت کو بعد میں دہرالیا۔
دیکھئے صحیح مسلم( کتاب الطہارہ باب المسح علی الناصیہ والعمامہ 8؍274)اور سنن ابن ماجہ (کتاب اقامۃ الصلوٰۃ باب ماجاء فی صلوٰۃ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم خلف رجل من امتہ ح1236)
یاد رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجود گی میں دوسرا شخص امام نہیں ہو سکتا ،جو شخص آپ کی غیر حاضری میں نماز پڑھا رہا تھا وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہے۔(الحدیث:10)
نماز میں عورت کی امامت
سوال: ایک سوال درپیش ہے کہ کیا عورت عورتوں کی امامت یا عورتوں مردوں کی اکٹھی امامت کرا سکتی ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔(چوہدری محمد اکرم گجر ،جلال بلگن ضلع گوجرانوالہ)
الجواب: اس مسئلے میں علماء کرام کا اختلاف ہے کہ کیا عورت نماز میں عورتوں کی امام بن سکتی ہے یا نہیں؟ ایک گروہ اس کے جواز کا قائل ہے۔
ایک روایت میں آیا ہے:"وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يَزُورُهَا في بَيْتِهَا وَجَعَلَ لها مُؤَذِّنًا يُؤَذِّنُ لها، وَأَمَرَهَا أَنْ تَؤُمَّ أَهْلَ دَارِهَا"
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان(اُم ورقہ رضی اللہ عنہا ) کی ملاقات کے لیے ان کے گھر جاتے آپ نے ان کے لیے اذان دینے کے لیے ایک مؤذن مقرر کیا تھا اور آپ نے انہیں(اُم ورقہ رضی اللہ عنہا کو) حکم دیا تھا کہ انہیں (اپنے قبیلے یا محلے والیوں کو)نماز پڑھائیں ۔‘‘
(سنن ابی داؤد ،کتاب الصلوٰۃ باب امامۃ النساء ح 593 وعنہ البیہقی فی الخلافیات قلمی 4ب)
یہ سند حسن ہے ،اسے ابن خزیمہ (1676)اور ابن الجارود (المنتقی: 333)نے صحیح قراردیا ہے۔
اس حدیث کے بنیادی راوی ولید بن عبد اللہ بن جمیع صدوق ،حسن الحدیث تھے۔(دیکھئے تحریر تقریب التہذیب :7432)