کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 285
اس حدیث سے دو مسئلے معلوم ہوئے۔
اول:حالت ضرورت اور اضطرار میں مکبر بننا اور بنانا جائز ہے۔
دوم:سارے مقتدی بغیر جہر کے ،خفیہ آواز سے ،دل میں تکبیریں کہیں گے، ورنہ پھر مکبر بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
4۔عکرمہ سے روایت ہے:’’ میں نے مکہ میں ایک شیخ کے پیچھے نماز پڑھی ۔ انھوں نے بائیس (22)تکبیریں کہیں ، میں نے ابن عباس( رضی اللہ عنہ )سے ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا: "سنة ابي القاسم صلي اللّٰه عليه وسلم"
یہ ابو القاسم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سنت ہے۔(صحیح البخاری:788)
چار رکعتوں میں تکبیر تحریمہ ،رکوع اور سجدوں والی تکبیریں اور دو رکعتیں پڑھ کر اٹھنے والی تکبیر، یہ کل تکبیریں بائیس(22)ہوتی ہیں۔
اس حدیث سے امام کا جہراً تکبیریں کہنا ،بطور نص (دلیل )اور مقتدیوں کا دل میں تکبیریں کہنا بطور اشارہ ثابت ہوتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ احادیث صحیحہ اور اجماع سے ثابت ہے کہ مقتدی حضرات دل میں سراً تکبیریں کہیں گے۔(الحدیث:6)
نبی کا اُمتی کی اقتداء میں نماز پڑھنا
سوال: دوسری روایت بھی سیوطی صاحب کی کتاب سے منقول ہے کہ ہر نبی نے اپنے امتی کے پیچھے نماز پڑھی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت آدم علیہ السلام نے کس کے پیچھے نماز پڑھی۔(عابد حسین شاہ ولد ظہور شاہ)
الجواب: حافظ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"ما قبض نبي قط حتى يصلي خلف رجل صالح من أمته " مفہوم : حدیث میں آیا ہے کہ ایسا کوئی نبی بھی فوت نہیں ہوا جس نے اپنی وفات سے پہلے اپنے کسی امتی کے پیچھے نماز نہیں پڑھی۔(تاریخ الخلفاءص88)
یہ روایت بزار (البحرالزخار1؍55ح 3کشف الستار 3؍211ح 2591) اور احمد بن حنبل