کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 284
ماہنامہ الحدیث حضرو میں بار بار یہ ثابت کر دیا گیا ہے کہ اجماع شرعی حجت ہے، مثلاً دیکھئے الحدیث:1ص4،والحمد للہ۔
2۔زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : "كُنَا نَتَكَلَّمُ في الصَّلاةِ يُكَلِّم الرَّجُلُ مِنَّا صَاحبَهُ وهُوَ إِلى جَنْبِهِ في الصلاةِ حَتى نَزَلَتْ ﴿وقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ﴾ فأُمِرْنَا بالسُّكوتِ ونُهيِنَا عَنِ الْكَلام"
’’ہم نماز میں باتیں کرتے تھے۔ ہر آدمی اپنے (ساتھ والے بھائی سے ضروری بات کر لیتا تھا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی ۔نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز (عصر )کی حفاظت کرو۔ اور اللہ کے سامنے عاجزی سے کھڑے ہو جاؤ۔(البقرۃ :238)پھر ہمیں سکوت (خاموشی )کا حکم دے دیا گیا۔‘‘(صحیح بخاری:4534وصحیح مسلم :539)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقتدی خاموشی سے نماز پڑھے گا۔ اس حکم سے تین حالتیں مستثنیٰ ہیں۔
اول:مقتدی اگر مکبرہو تو دوسرے مقتدیوں کو سنانے کے لیے بلند آواز سے تکبیریں کہے گا۔اس کی دلیل آگے آرہی ہے۔
دوم:امام اگر بھول جائے تو مقتدی مرد سبحان اللہ کہے گا۔
دلیل کے لیے دیکھئے صحیح بخاری (1234) وصحیح مسلم (421)
سوم:اگر امام قراءت میں بھول جائے تو مقتدی اسے بلند آواز میں لقمہ دے سکتا ہے۔ دیکھئے سنن ابی داؤد(907)وجزءالقراء للبخاری بتحقیقی (194)وسندہ حسن ۔
3۔سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"وقعد النبي - صلى اللّٰه عليه وسلم إلى جنبه وأبو بكر يسمع الناس التكبير"
’’اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان(ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ) کے پاس بیٹھ گئے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھانے لگے) اور ابوبکر (صدیق رضی اللہ عنہ) لوگوں کو تکبیر سناتے تھے۔‘‘
(صحیح البخاری:712وصحیح مسلم:96؍418)