کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 283
(1)ترمذی:260۔(2)حاکم۔(3) ابن خزیمہ:589۔(4)ابن حبان،29ح2302،دوسرا نسخہ 6؍79،80،ح 2305) خلاصہ یہ کہ فلیح بن سلیمان حسن الحدیث راوی ہیں۔ والحمد للہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’وحدیثہ فی رتبۃ الحسن‘‘اور ان کی حدیث حسن درجے کی ہوتی ہے۔(تذکرہ الحفاظ 1؍224ت 209) محمد بن علی النیموی نے فلیح مذکور کی حدیث کو"اسنادہ حسن"قراردے کر حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے۔(آثار السنن ح604مع التعلیق ) (7)سعید بن الحارث : ثقہ ہیں۔(التقریب :2280) خلاصہ : یہ سند حسن لذاتہ ہے۔ تنبیہ: یہی روایت حافظ ہیثمی نے بحوالہ مسند احمد نقل کی ہے۔ مجمع الزوائد 2؍103،104) اور حافظ ہیثمی سے ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے نقل کر کے اس سے استدلال کیا ہے۔(اعلاء السنن 2؍185ح 662)واحیا ء السنن 1؍372) فائدہ:بیہقی والی یہ حدیث ،صحیح بخاری (ح825)میں مختصراً موجود ہے۔ اس حدیث سے صاف معلوم ہوا کہ جماعت میں امام کو بلند آواز سے تکبیریں کہنی چاہئیں ۔ مقتدیوں کا دل میں (خفیہ) تکبیریں کہنا مقتدیوں کا دل میں آہستہ آواز سے خفیہ تکبیریں کہنا کئی دلائل سے ثابت ہے۔ 1۔اس پراجماع ہے کہ مکبرکے علاوہ تمام مقتدیوں کو، امام کے پیچھے دل میں، سراً آہستہ آواز سے اور خفیہ تکبیریں کہنی چاہئیں۔ اس اجماع کا نظارہ دنیا کی کسی بھی مسجد میں جا کر کیا جا سکتا ہے،والحمد للہ۔ مولانا نذیر احمد رحمانی رحمہ اللہ (متوفی 1065ء)فرماتے ہیں۔ ’’اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے کہ تکبیرات انتقال امام زور سے کہتا ہے تو مقتدی بھی اس کی اتباع میں زور سے کہیں۔‘‘ (نوافل کی جماعت کے ساتھ فرض نماز کا حکم ص84مطبوعہ ادارۃ العلوم الاثریہ فیصل آباد)