کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 282
نے(ہمیں) نماز پڑھائی، پس انھوں نے تکبیر افتتاح، رکوع والی تکبیر ،سمع لمن حمدہ کےبعد (سجدے کے لیے جانے)والی تکبیر ،سجدے سے اٹھنے والی تکبیر (دوبارہ ) سجدہ کرنے والی تکبیر (سجدے سے)اٹھنے والی تکبیر اور دورکعتیں پڑھ کر اٹھنے والی تکبیر (یہ سب تکبیریں)جہراً(اونچی آواز سے)کہیں حتی کہ انھوں نے اسی (طریقے)پر نماز پوری کی۔ پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو کہا گیا: لوگوں کا آپ کی نماز پر اختلاف ہو گیا ہے۔تو آپ(وہاں سے)نکل کر منبر پر کھڑے ہوگئے ،پھر فرمایا :اے لوگو!اللہ کی قسم مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ تمھاری نمازوں میں اختلاف ہوا ہے یا نہیں بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح نماز پڑھتے (پڑھاتے )دیکھا ہے۔‘‘ اسے(امام) بخاری رحمہ اللہ نے صحیح(بخاری)میں یحییٰ بن صالح عن فلیح بن سلیمان کی سند سےروایت کیا ہے۔(السنن الکبری للبیہقی ج2ص18باب جہرالامام بالتکبیر) سند کی تحقیق اس حدیث کی سند کے روایوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔ (١)۔ "ابوالقاسم طلحة بن علي بن الصقر:كان ثقة" (تاريخ بغداد 9ص 353) (2)۔‘‘ ابوعبداللّٰه محمد بن احمد بن ابي طاهر الدقاق:كان ثقة" (تاریخ بغداد 1؍353،354ت 281) (3)۔‘‘ احمد بن عثمان بن يحييٰ الآدمي :وكان ثقة حسن الحديث"(تاریخ بغداد 4؍299) (4)۔‘‘ عباس بن محمد بن حاتم الدوري:ثقة حافظ"(تقریب التہذیب:3189) (5)۔ "يونس بن محمد(المؤدب) :ثقة ثبت"(تقریب التہذیب:3189) (6)۔ "فليح بن سليمان": صحیح بخاری وصحیح مسلم کے راوی ہیں، جمہور نے ان کی توثیق کی ہے۔ جس کی جمہور محدثین توثیق کریں وہ راوی(کم ازکم)حسن الحدیث ہوتا ہے۔ حافظ ذہبی اس کی بیان کردہ حدیثوں کو صحیح کہتے ہیں۔ مثلاً:دیکھئے المستدرک للحاکم (4407ح8244) امام بخاری ومسلم کے علاوہ درج ذیل محدثین نے بھی ان کی حدیثوں کو صحیح قراردیا ہے: