کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 279
3۔اگر امام رکوع یا سجدے وغیرہ میں ہے تو تکبیر کہتے ہوئے اسی حالت میں شامل ہونا چاہیے، ہاتھ باندھ کر قیام کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے:"الإِمَامُ ضَامِنٌ ، فَمَا صَنَعَ فَاصْنَعُوا "’’امام ضامن ہےجیسے وہ کرے اسی طرح کرو۔‘‘
(سنن الدارقطنی ج1ص22ح1214)
اس کے راوی محمدبن کلیب بن جابر کے بارے میں ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ نے کہا: ثقہ(الجرح والتعدیل 8؍68)
حافظ ابن حبان نے انھیں کتاب الثقات (ج5ص362)میں ذکر کیا دوسراراوی موسیٰ بن شیبہ بن عمرو بن عبد اللہ ہے جس کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ نے کہا:"احادیثہ مناکیر"
ابو حاتم الرازی نے کہا:"صالح الحدیث"(الجراح والتعدیل 8؍147)
ابن حبان رحمہ اللہ نے کتاب الثقات(9؍158) میں ذکر کیا ہے۔
معلوم ہوا کہ یہ راوی حسن الحدیث ہیں انھیں لین الحدیث کہنا صحیح نہیں ہے۔باقی سند کے سارے راوی ثقہ ہیں ،لہٰذا یہ سند حسن ہے۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ والی روایات بھی اس کی مؤید ہیں۔
فائدہ نمبر1: ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان کر کے فرمایا:
"هذا تصحيح لمن قال بالقراءة خلف الامام"’’جو شخص قراءت خلف الامام کا قائل ہے یہ حدیث اسے صحیح قراردیتی ہے۔‘‘ (الدارقطنی حوالہ مذکور)
معلوم ہوا کہ ابو حاتم الرازی ا س حدیث کو صحیح سمجھتے ہیں، اس لیے اس سے ’’تصحیح ‘‘والا استدلال کرر ہے ہیں۔
فائدہ نمبر2: اگر امام کتاب و سنت کے خلاف کوئی کام کرے مثلاً ترک رفع یدین وارسال الیدین قبل الرکوع وغیرہ تو اس کی اس میں پیروی قطعاً نہیں کرنی چاہیے جیسا کہ "لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ اللّٰه "جیسا عام دلائل سے ثابت ہے۔
(شہادت، اپریل 2004ء)