کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 276
سترے کا بیان
سترے کا حکم
سوال: کیا نماز میں سترہ قائم کرنا واجب یا مستحب ہے؟(حافظ شفیق باغ، آزاد کشمیر)
الجواب: نماز میں سترہ کا اہتمام کرنا مستحب ہے۔ وہ احادیث جن میں سترہ کی تائید و حکم یا سترہ کے بغیر نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، استحباب پر محمول ہیں۔
ان احادیث کے امر کو وجوب سے استحباب پر پھیرنے والی وہ دلیل ہے جسے امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں (ج 2ص25 ح 838۔839)سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے:
"فَمَرَرْنَا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ وَهُوَ يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ، لَيْسَ شَيْءٌ يَسْتُرُهُ، يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ"
’’پس ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرے آپ عرفات میں فرض نماز پڑھ رہے تھے ۔آپ کے اور ہمارے درمیان کوئی چیز بھی بطور سترہ موجود نہیں تھی۔‘‘
صحیح ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے محقق نے بھی اسے"اسنادہ صحیح"کہا ہے۔ اس کی تائید امام بزار رحمہ اللہ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری(ج171)میں ذکر کیاہے۔
نیز دیکھئے شرح صحیح بخاری لابن بطال (2؍175)البحر الزخار(11؍201ح4951) اور نصب الرایہ (2؍82)
’’الفقہ الاسلامی وادلتہ‘‘(1؍752)نامی کتاب میں ہے:
"وليست واجبة باتفاق الفقهاء، لأن الأمر باتخاذها للندب"
اس پر فقہاء (اربعہ)کا اتفاق ہے کہ سترہ واجب نہیں ہے ،لہٰذا ان کے نزدیک سترہ کا حکم استحباب پر محمول ہے۔
(شہادت دسمبر2000ء ہفت روزہ الاعتصام لاہور 27؍جون 1997ء)