کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 272
نماز عصر کا وقت سوال قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ(نماز )عصر کا وقت کب شروع ہوتا ہے؟(چراغ حسین شاہ کامرہ کلاں ضلع اٹک) الجواب: سنن ابی داؤد (ج1ص62)سنن ترمذی (ج1ص38)اور صحیح ابن خزیمہ (ج1ص168) میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " أَمَّنِي جِبْرِيلُ عِنْدَ البَيْتِ مَرَّتَيْنِ، فَصَلَّى الظُّهْرَ فِي الأُولَى مِنْهُمَا حِينَ كَانَ الفَيْءُ مِثْلَ الشِّرَاكِ، ثُمَّ صَلَّى العَصْرَ حِينَ كَانَ كُلُّ شَيْءٍ مِثْلَ ظِلِّهِ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَصَلَّى المَرَّةَ الثَّانِيَةَ الظُّهْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَهُ لِوَقْتِ العَصْرِ بِالأَمْسِ، ثُمَّ صَلَّى العَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَيْهِ، ثُمَّ صَلَّى المَغْرِبَ لِوَقْتِهِ الأَوَّلِ، ثُمَّ صَلَّى العِشَاءَ الآخِرَةَ حِينَ ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ صَلَّى الصُّبْحَ حِينَ أَسْفَرَتِ الأَرْضُ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، هَذَا وَقْتُ الأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِكَ، وَالوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ هَذَيْنِ الوَقْتَيْنِ" ’’مجھے جبریل علیہ السلام نے بیت اللہ کے قریب دو دفعہ امامت کرائی۔پس اس نے پہلے دن ظہر کی نماز اس وقت پڑھی جب سایہ تسمے کے برابر تھا ۔ پھر اس نے عصر کی نماز اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دوسری دفعہ ظہر اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو گیا۔ جس وقت کل (پہلے دن)کی عصر پڑھی تھی ۔پھر اس نے عصر اس وقت جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہو گیا۔ پھر جبریل علیہ السلام نے میری طرف رخ کر کے فرمایا:اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! یہ آپ سے پہلے انبیاء کا وقت ہے اور نماز کا وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان ہے۔‘‘ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا:"حدیث ابن عباس حدیث حسن "ابن عباس کی حدیث حسن ہے۔نیز اسے ابن حبان رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی صحیح کہا ہے۔ (دیکھئے نصب الرایہ للزیلعی ج1ص221،وراجع التلخیص الحبیر ج1ص173) محمد بن علی النیموی نے لکھا:"واسنادہ حسن "اور اس کی سند حسن ہے۔(آثار السنن ص51) یہ صحیح روایت اپنے مدلول پر واضح اور صریح ہے۔ اس کے متعدد شواہد بھی ہیں۔ مثلاً