کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 268
إلا عند ميت فإنهن إذا اجتمعن قلن وقلن " ’’اس کا راوی بھی الوازع بن نافع ہے،وازع کا شاگرد مغیرہ بن سقلاب ضعیف علی الراجح اور موسیٰ بن ایوب صاحب خبر منکر ہے۔ یہ سند بھی مردود ہے۔ اس کے مقابلے میں سنن ابی داؤد (کتاب الصلوۃ باب امامۃ النساء ح592ومن طریقہ البیہقی فی الخلافیات مخطوط مصور 4 ب) میں ہے کہ:"وأمرھا أن توم أھل دارھا " اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کریں۔ اس روایت کو ابن خزیمہ رحمہ اللہ (1676) اور ابن جارود (333)نے صحیح قراردیا ہے۔ شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قراردیا ہے اور محمد بن علی النیموی (تقلیدی )نے بھی اسے اسنادہ حسن لکھا ہے(آثار سنن ح513)اس حدیث کے راویوں کا مختصر تذکرہ پڑھ لیں۔ 1۔عبد الرحمٰن بن خلادالانصاری :انھیں ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا اور ابن القطان الفاسی المغربی نے کہا:"حالہ مجہول " ابن خزیمہ اور ابن الجارود نے تصحیح کے ذریعے سے انھیں ثقہ وصدوق قراردیا ،یعنی وہ ابن حبان ، ابن خزیمہ اور ابن الجارود کے نزدیک ثقہ تھے، لہٰذاابن القطان وغیرہ کی تجہیل (مجہول قراردینے) کا یہاں کوئی اعتبار نہیں ہے۔ لیلیٰ بنت مالک نے ان کی متابعت کر رکھی ہے۔ 2۔ولید بن عبد اللہ بن جمیع صحیح مسلم وغیرہ کے راوی تھے۔ امام یحییٰ بن معین اور جمہور محدثین نے انھیں ثقہ ولا باس بہ قراردیا ہے۔ ان پر ابن حبان عقیلی اور حاکم کی جرح مردود ہے ،لہٰذا ان کی روایت صحیح یا حسن ہوتی ہے۔ 3۔محمد بن فضیل بن غزوان :کتب ستہ کے راوی اور موثق عند الجمہور تھے۔ان پر تشیع کا الزام چنداں مضر نہیں ہے۔ ان کی روایت صحیح ہوتی ہیں۔ والحمد للہ 4۔الحسن بن حماد المصری صدوق تھے۔(دیکھئے تقریب التہذیب ص69وغیرہ) خلاصہ یہ کہ یہ سند حسن ہے اسے عبد الرحمٰن بن خلاد کی وجہ سے ضعیف کہنا صحیح نہیں ہے۔ مصنف عبد الرزاق (5086)اور السنن الکبری للبیہقی (3؍131)میں ایک روایت ہے کہ