کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 267
1۔وہ سماع کی تصریح کریں کیونکہ وہ مدلس تھے۔(قال ابن حبان : یدلس عن اقوام ضعفاء ) 2۔ان کی روایت اختلاط سے پہلے کی ہو۔ درج ذیل راویوں نے ان اختلاط سے پہلے احادیث سنی تھیں: عبد اللہ بن المبارک ،عبد اللہ بن وہب ، عبد اللہ بن یزید المقری (تہذیب التہذیب 5؍330)یحییٰ بن اسحاق السیلحینی (تہذیب التہذیب 2؍361ترجمہ حفص بن ہاشم بن عقبۃ الزہری رحمہ اللہ )عبداللہ بن مسلمہ القعنبی (میزان الاعتدال 2؍482)الولید بن مزید (المعجم الصغیر 1؍231)عبد الرحمٰن بن مہدی (مقدمہ لسان المیزان 1؍10،11)اسحاق بن عیسیٰ (میزان الاعتدال 2؍477) لیث بن سعد (فتح الباری 4؍345تحت ح2127) بشر بن بکر (الضعفاء للعقیلی 2؍294)سفیان ثوری ،شعبہ اوزاعی ، عمرو بن الحارث المصری (ذیل الکواکب النیرات ص47) اوپر ذکر کردہ روایت میں ابن لہیعہ کے تین شاگرد ہیں: 1۔حجاج (لعلہ ابن محمد الاعوراوابن سلیمان الرعینی) 2۔حسن بن موسیٰ الاشیب ۔ 3۔ابو صالح الحرانی (عبدالغفار بن داود) ان تینوں کا سماع قبل از اختلاط ثابت نہیں ہے لہٰذا یہ ضعیف ہے۔ یار رہے کہ ولید بن ابی الولید پر جرح مردود ہے۔ المعجم الاوسط للطبرانی (ج8ص64ح7126)میں ایک روایت ہے کہ: "لاخير في جماعة النساء إلا عند ميت فإنهن إذا اجتمعن قلن وقلن" اس کا راوی الوازع بن نافع متروک ہے۔ دیکھئے المیزان (ج6ص259،260)وغیرہ متروک کی روایت شواہد و متابعت میں بھی پیش نہیں کی جا سکتی ۔ دیکھئے اختصار علوم الحدیث لا بن کثیر (ص38النوع الثانی تعریفات اخری للحسن ) المعجم الکبیر للطبرانی (ج12ص317ح 1228) میں ہے کہ: "لاخير في جماعة النساء