کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 264
دیکھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "أَلَارَجُلٌ يَتَصَدَّقُ عَلَى هَذَا فَيُصَلِّيَ مَعَهُ ؟" کیا کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو( ثواب کی تجارت کرتے ہوئے)اس آدمی پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ مل کر نماز (با جماعت )پڑھے ؟(واللفظ لا بی داؤد:554)
سنن ترمذی میں اس حدیث کے آخر میں یہ اضافہ ہے کہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر اس جماعت سے رہنے والے آدمی کے ساتھ مل کر نماز باجماعت پڑھی ۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔اسے امام ترمذی نے"حسن"ابن خزیمہ (1632)ابن حبان (مواردالظمآن 436۔438) حاکم (1؍209)ذہبی اور حافظ ابن حجر (فتح الباری2؍142تحت ح658)نے صحیح قراردیا ہے۔اس حدیث سےثابت ہوا کہ(مسجد کے امام یا انتظامیہ کی اجازت سے)دوسری جماعت بغیر کسی کراہت کے جائز ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہی قول کئی صحابہ اور تابعین کا ہے کہ جس مسجد میں جماعت ہو چکی ہو تو دوسری جماعت جائز ہے اور یہی قول(امام )احمد رحمہ اللہ اور (امام ) اسحاق (بن راہویہ ) کا ہے۔(سنن الترمذی ص64باب ماجاء فی الجماعۃ فی المسجد قد صلی فیہ مرۃ )سنن دارقطنی (1؍276ح1068)میں اس حدیث کا ایک حسن شاہد(تائید کرنے والی روایت )بھی ہے جس کے بارے میں زیلعی حنفی نے کہا:"وسندہ جید"اور اس کی سند اچھی ہے۔(نصب الرایۃ 1؍58)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک جگہ تشریف لے گئے، وہاں فجر کی نماز باجماعت ہو چکی تھی، تو انھوں نے ایک آدمی کو اذان دینے کا حکم دیا پھر انھوں نے نماز فجرسے پہلی دو رکعتیں پڑھیں پھر انھوں نے اقامت کا حکم دیا اور آگے ہو کر اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی۔ (دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص321ح7093،وسندہ صحیح وقال الحافظ ابن حجر فی تغلیق التعلیق (2؍277)"ھذا اسنادصحیح موقوف "وصحیح البخاری قبل ح646)
محدث محمد بن ابراہیم بن المنذر النیساپوری رحمہ اللہ (متوفی318ھ) فرماتے ہیں جو آدمی اس(جماعت ثانیہ) سے منع کرتا ہے یا مکروہ سمجھتا ہے، ہمارے علم کے مطابق اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔(الاوسط فی السنن والا جماع والاختلاف ج4ص218)