کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 263
ونظر دقیق واثر توفیق یہ ہے کہ اس صورت میں تکرار جماعت بہ اعادہ اذان ہمارے نزدیک ممنوع و بدعت ہے یہی ہمارے امام کا مذہب مہذب و ظاہر الرایہ ہے۔
متن متین مجمع البحرین ،وبحرالرائق علامہ زین میں ہے کہ مسجد محلہ میں دوسری اذان کے ساتھ تکرار جامعت جائز نہیں۔(البحرالرائق)
فقہا ئے کرام نے ایک ہی مسجد میں’’جماعت ثانیہ‘‘پر اس لیے تفصیل کے ساتھ گفتگو فرمائی کہ لوگ بلا ضرورت و بلا جواز شرعی اسے انتشار کا ذریعہ نہ بنائیں اور دانستہ فتنہ و تفریق بین المسلمین کا سبب نہ بنیں۔‘‘
جواب الجواب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ،امابعد:
آپ کا خط ملا جس میں مفتی منیب الرحمٰن نے ایک سوال کا جواب بعنوان:’’مسجد میں جماعت ثانی کا حکم‘‘لکھا ہے جو روزنامہ ایکسپریس 23فروری 2007ءبروز جمعہ شائع ہوا ہے۔ راقم الحروف نے اس جواب کا مطالعہ کیا۔ جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
1۔نماز باجماعت کے بے شمار فضائل ہیں جیسا کہ صحیح مسلم (وغیرہ)سے ثابت ہیں۔
2۔اگر کسی شرعی عذر سے جماعت رہ جائے تو دوسری جماعت کا اجر ہے جیسا کہ سنن ترمذی و سنن ابی داؤد کی احادیث سے ثابت ہے۔
3۔حصکفی حنفی ابن عابدین شامی حنفی اور احمد رضا بریلوی نے یہ کہا ہے اور فتاوی عالمگیری اورالبحرالرائق وغیرہ حنفی کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے۔
4۔حنفی (و تقلیدی لوگ)اپنی نماز کی حفاظت کے لیے جماعت ثانی کر سکتے ہیں بحوالہ احمد رضا خان بریلوی ۔
5۔مسجد محلہ میں دوسری اذان کے ساتھ تکرار جماعت جائز نہیں بحوالہ البحرالرائق ۔
عرض ہے کہ اول الذکر: نماز باجماعت کے فضائل پر سب کااتفاق ہے۔سوم ،چہارم اور پنجم کا تعلق قرآن و حدیث کے دلائل سے نہیں بلکہ فقہ حنفی و فقہ بریلوی وغیرہما سے ہے جس کا جواب دینے کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان اقوال وفتاوی کا شرعی حجت ہونا ہی ثابت نہیں ہے۔دوم کے سلسلے میں عرض ہے کہ سنن ترمذی( 220) وسنن ابی داود (554)کی حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک آدمی کو جماعت ہو جانے کے بعد اکیلے نماز پڑھتے ہوئے