کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 260
جماعت کرانا صحیح نہیں ہے بلکہ ان پر لازم ہے کہ فورا صلح و صفائی کریں ۔(شہادت اگست 2000ء) مسجد میں دوسری جماعت کرانے کا حکم سوال: السلام علیکم ، آپ کی خدمت میں روز نامہ ایکسپریس مورخہ 23فروری 2007ءکا تراشہ بھیج رہا ہوں ۔ اس میں مفتی منیب الرحمٰن نے’’مسجد میں جماعت ثانی کا حکم‘‘کے عنوان سے ایک سوال کا تفصیلاً جواب دیا ہے۔آپ سے گزارش ہے کہ صحیح احادیث کی روشنی میں جماعت ثانی کے متعلق دئیے گئے جواب پر تفصیلی روشنی ڈالئے تاکہ نماز جیسے اہم رکن کے متعلق (Confusion)(پریشانی )دور ہو سکے۔(اشفاق احمد ملک راولپنڈی) منیب الرحمٰن صاحب کا مضمون مع سوال وجواب درج ذیل ہے: "مسجد میں جماعت ثانی کا حکم" مفتی منیب الرحمٰن سوال: ہم یہ دیکھتے چلے آئے ہیں کہ مسجد میں ایک جماعت کے بعد دوسری جماعت بھی کی جاتی ہے لیکن میں نے مسجد بلال ماڑی پور میں لکھا ہوا دیکھا ہے کہ مسجد میں دوسری جماعت کرنا مکروہ تحریمی ہے۔وضاحت فرما دیجیے ۔ (سیدصفی اللہ شاہ گڑھی نواب ، بٹگرام) الجواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جماعت کے بے شمار فضائل بیان فرمائے ہیں اور ترک جماعت پر وعید بھی فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’منافقین پر سب سے زیادہ دشوار عشاء اور فجر کی نماز ہے۔ اگر ان لوگوں کو ان نمازوں کا ثواب معلوم ہو جائے تو انھیں پڑھنے ضرور آئیں گے خواہ انھیں گھٹنوں کے بل چل کر آنا پڑے۔میں نے ارادہ کیا تھا کہ ایک شخص کو نماز پڑھانے کا حکم دوں،پھر چند لوگوں کے ساتھ لکڑیوں کا گٹھرلے کر ان لوگوں کے پاس جاؤں جو جماعت میں نہیں آتے اور ان کے گھروں کو آگ لگادوں ۔‘‘ (صحیح مسلم)بشری تقاضے کے تحت اگر کسی شرعی عذرکی بناء پر جماعت چھوٹ جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے جماعت کے اجر کا اہتمام فرمایااور ترغیب دی۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص (مسجد نبوی میں)آیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تھے۔(یعنی جماعت ہو چکی تھی)تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا:’’کون ہے جو اس کے ساتھ (جماعت کے ثواب کی) تجارت کرے؟‘‘ تو ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے اس شخص کے ساتھ(نفل کی نیت کر کے باجماعت)نماز پڑھی ۔(سنن ترمذی)