کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 259
روایت کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں جب تک سند کا متصل ،غیر شاذاور غیر معلول ہونا ثابت نہ ہوجائے۔اوپر بیان کردہ روایت کا متصل ہونا مشکوک ہے۔اس کے بنیادی راوی ولید بن مسلم ثقہ ہونے کے ساتھ مدلس بھی تھے خود شیخ البانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے۔
"ثم ان الوليد بن مسلم وان كان ثقة فقد كان يدلس تدليس التسوية"
پھر(یہ کہ)بے شک ولید بن مسلم اگرچہ ثقہ تھے مگر تدلیس تسویہ کرتے تھے۔(السلسلۃ الضعیفۃ ج2ص81ح213)
بلکہ انھوں نے مزید لکھا ہے:"فالمحققون لا يحتجون بما رواه الوليد إلا إذا كان مسلسلاً بالتحديث أو السماع"
پس محققین (حضرات)ولید کی روایت سے حجت نہیں پکڑتے سوائے اس کے کہ وہ مسلسل تحدیث(حدثنا حدثنی وغیرہ)یا سماع کی تصریح کریں۔ (الضعیفۃ ج3ص409،410ح1253)
چونکہ اس سند میں سماع مسلسل (آخر تک ہر راوی کے سماع کی تصریح )نہیں ہے، لہٰذا یہ روایت قابل حجت نہیں ہے۔اسے حسن قرار دینا محققین کی تحقیق کے خلاف ہے۔
(ہفت روزہ الاعتصام لاہور27؍جون 19997ءج9شمارہ24)
قصداً دوسری جماعت کرانے کا حکم؟
سوال: ہمارے مولوی صاحب کہتے ہیں :جو آدمی پانچوں نمازیں جماعت سے پڑھے وہ کبھی کسی مجبوری کی وجہ سے جماعت سے رہ جائےتو وہ آدمی دوسری جماعت کروا سکتا ہے ورنہ دوسری جماعت ہر لیٹ آنے والا نہیں کرواسکتا کیا یہ درست ہے؟حوالہ مانگیں تو کہتے ہیں کہ کسی عالم سے پوچھو اس کی وضاحت فرما دیں کہ دوسری جماعت کے لیے کیا حکم ہے؟(ظفر اقبال شکر گڑھ )
الجواب: اگر کسی شرعی عذر کی بنا پر جماعت سے رہ جائے تو دوسری جماعت کرانا جائز ہے لیکن خواہ مخواہ شرو فساد اور فتنے کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
اگر صحیح العقیدہ امام اور انتظامیہ کے ساتھ دشمنی ہے تو ان لوگوں کا مسجدوں میں دوسری