کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 258
مکتوم رضی اللہ عنہ )آئے اور گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت مانگی تو آپ نے پوچھا :کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟ انھوں نے کہا:جی ہاں !پھر آپ نے فرمایا:تو مسجد میں آؤ۔(صحیح مسلم:653)
مشہور جلیل القدر صحابی سیدنا عبد اللہ بن مسعود البدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کے طریقے سکھائے۔ان ہدایت کے طریقوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس مسجد میں نماز ادا کی جائے جس میں اذان دی جاتی ہے(اور ایک روایت میں ہے انھوں نے فرمایا:)اگر تم نماز اپنے اپنے گھروں میں پڑھوگے جیسے (جماعت سے)پیچھے رہنے والا یہ شخص اپنے گھر میں پڑھ لیتا ہے تو تم اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دو گے اور اگر نبی کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے ۔الخ(صحیح مسلم:654)
لہٰذا ان جماعتی بھائیوں کو چاہیے کہ فرض نماز ملحقہ مسجد میں ادا کریں۔(شہادت، مئی1999ء)
نماز باجماعت کے بعد دوسری جماعت
سوال: ایک روایت میں آیا ہے۔کہ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے اطراف سے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کرنا چاہتے تھے۔آپ نے دیکھا کہ لوگو ں نے نماز پڑھ لی ہے تو آپ اپنے گھر کی طرف چلے گئے۔ آپ نے گھر والوں کو جمع کیا۔ پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی ۔‘‘ کیا یہ روایت صحیح ہے؟(ایک سائل)
جواب ۔یہ روایت نہ صحیح ہے نہ حسن ۔
اسے حافظ ابن عدی رحمہ اللہ نے الکامل(ج6ص2398)اور امام طبرانی نے الاوسط (ج5ص304ح4598) میں۔
"الوليد بن مسلم قال اخبرنى ابو مطيع معاوية بن يحيى عن خالد الحذاء عن عبد الرحمن بن ابى بكرة عن ابيه"
کی سندکے ساتھ روایت کیا ہے۔ شیخ ناصر الدین البانی نے حافظ ہیثمی رحمہ اللہ سے"ورجالہ ثقات"اوراس کے راوی ثقہ ہیں۔
(مجمع الزوائد ج 2ص45)نقل کر کے اسے"حسن"قراردیا ہے۔
(دیکھئے: تمام المنہ ج1ص155مجلہ الدعوۃ، لاہور ،محرم 1418ھ مئی 1997ءص44)
حالانکہ اصول میں یہ مقرر و متعین ہے کہ کسی سند کے راویوں کا ثقہ ہونا اس وقت تک اس