کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 254
ہے۔اس بات کے چند دلائل درج ذیل ہیں:
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسود بن یزید اور علقمہ بن قیس کو اپنے گھر میں نماز پڑھائی لیکن انھیں اذان اور اقامت کہنے کا حکم نہیں دیا۔دیکھئے صحیح مسلم(کتاب المساجد باب الندب الی وضع الایدی علی الرکب فی الرکوع ونسخ التطبیق ح534 ترقیم دارالسلام :1191)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں اذان واقامت ہونے کے بعد گھر یامسجد میں دوسری جماعت کے لیے اذان واقامت ضروری نہیں ہے۔
ایک آدمی مسجد میں آیا اور نماز ہوچکی تھی تو وہ اقامت کہنے لگا۔اسے عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ نے کہا:اقامت نہ کہو کیونکہ ہم نے اقامت کہہ دی ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ 1؍221 ح2305 وسندہ صحیح)
مشہورتابعی اور مفسر قرآن امام مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا:اگر تم ا پنے گھرمیں اقامت سن لو اور چاہوتوتمہارے لیے یہ کافی ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ 1؍220 ح 2296 وسندہ حسن)
عروہ بن الزبیر نے فرمایا:اگر تم سفر میں ہوتو تمہاری مرضی ہے کہ اذان اور اقامت کہو یا صرف اقامت کہہ دو اور اذان نہ کہو۔(موطا امام مالک 1؍73ح156وسندہ صحیح)
مزید تفصیل کے لیے دیکھئے موطا امام مالک (روایۃ ابن القاسم ،اختصار القابسی بتحقیقی :198)
معلوم ہوا کہ دوسری جماعت کے لیے دوبارہ اذان ضروری نہیں ہے اور انفرادی نماز کے لیے اذان یا اقامت بالکل ضروری نہیں ہے، لہذا آپ کے علاقے کے عرب عالم کا کہنا صحیح نہیں ہے۔
جن روایات میں ایسی حالت میں اذان کا ذکر آیا ہے وہ استحباب اور جواز پر محمول ہیں۔