کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 253
ھذااسناد صحیح موقوف"اور صحیح بخاری کتاب الاذان باب فصل صلوٰۃالجماعۃ قبل ح645 تعلیقاً) اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس سے دوبارہ اذان واقامت کا جواز ثابت ہوتا ہے ۔سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر میں اسود اور علقمہ(تابعین) کو نماز پڑھائی تو انھیں اذان یا اقامت کا حکم نہیں دیا۔ (صحیح مسلم کتاب المساجد باب الندب الی وضع الایدی علی الرکب فی الرکوع ح534) یعنی یہ باجماعت نماز بغیر اذان واقامت کے پڑھی گئی تھی۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: "إذا كنت في قرية يؤذّن فيه ويقام أجزأك ذلك" اگرتم کسی گاؤں میں ہو جس میں اذان واقامت ہوتی ہوتو تمہارے لیے وہی کافی ہے۔(کتاب المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان الفارسی 2؍209 وسندہ صحیح السنن الکبری للبیہقی 1؍406) جہاں اقامت ہوجاتی وہاں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما دوسری اقامت نہیں کہتے تھے۔ کتاب المعرفۃ والتاریخ 2؍209 وسندہ حسن عبداللہ بن واقد بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بن الخطاب وثقہ مسلم وابن حبان والحاکم 2؍278،248 وذہبی والبیہقی 1؍406 فحدیثہ لا ینزل عن درجۃ الحسن) لہذا معلوم ہوا کہ دونوں طرح جائز ہے۔اگرفتنے وفساد کااندیشہ نہ ہوتو دوسری مرتبہ بھی(بغیرلاؤڈاسپیکر کے)اذان واقامت کہنا بہتر ہے۔واللہ اعلم۔ (شہادت ،جولائی 2003ءاکتوبر 2000ء) انفرادی نماز اور اقامت سوال: اگر کوئی شخص فرض نماز انفرادی طورپر ادا کرتا ہے۔گھر میں کسی اور جگہ یا مسجد میں تو اس کے لیے اقامت کہنا لازمی ہے یا نہیں؟اگرچہ نیت جماعت کی نہ ہو۔کیونکہ یہاں پر ایک عرب عالم کا کہنا ہے کہ اقامت ضروری ہے اور کچھ تو اذان دینے کے حق میں بھی ہیں اگرچہ(نماز) انفرادی ہی کیوں نہ ہو۔(محمد عادل شاہ ،برطانیہ) الجواب: انفرادی طور پر فرض نماز پڑھنے والے کے لیے اقامت کہناضروری نہیں