کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 252
سب سے بڑا امامت کرائے۔(صحیح البخاری:628 وصحیح مسلم:674)
اذان واقامت شعائر اسلام میں سے ہیں۔تاہم میرے علم میں ایسی کوئی حدیث نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہوکہ اگر سہواًیاتعمداً اذان یا اقامت رہ جائے تو نماز نہیں ہوتی۔
بالتعمد اذان واقامت نہ دینا احادیث صحیحہ اور شعائر اسلام کی مخالفت کی وجہ سے انتہائی مذموم عمل ہے تاہم سہو پر اعادہ صلوٰۃ لازم نہیں ہے۔
مشہور تابعی عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ اس بات کے قائل تھے کہ اگر کوئی شخص اقامت بھول جائے تو دوبارہ نماز پڑھنی چاہیے۔
(مصنف عبدالرزاق 1؍511 ح1958 مصنف ابن ابی شیبہ 1؍218 ح 2272 وسندہ صحیح 2274 ،2275)
مجاہد تابعی رحمہ اللہ کا بھی یہی خیال تھا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1؍218ح2273وسندہ صحیح)
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ اس بات کے قائل تھے کہ اقامت بھول جانے کی صورت میں نماز دوبارہ نہیں پڑھی جائےگی۔
(مصنف ابن ابی شیبہ 1؍218ح2271 وسندہ صحیح)
ان متناقض اقوال میں راجح یہی ہے کہ نماز صحیح ہے اور اس کا اعادہ ضروری نہیں ہے۔واللہ اعلم (شہادت،دسمبر 2003ء)
دوسری جماعت کے لیے اقامت کا مسئلہ
سوال: ایک ہی نماز کی دوسری جماعت کروانے کے لیے دوبارہ تکبیر کہنی چاہیے یا پہلی تکبیر کافی ہے؟کہتے ہیں کہ دوبارہ اگر اذان کہی جائے تو پھر دوبارہ تکبیر نہیں کہنی چاہیے۔کیا یہ صحیح ہے؟صحیح صورت حال سے آگاہ فرمائیں۔(ظفراقبال)
الجواب: اس مسئلے کی کوئی مرفوع صریح حدیث میرے میں علم نہیں ہے ،البتہ علماء کرام کے آثار ضرور موجود ہیں۔
سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ایک مسجد میں آکر جہاں لوگ نماز(باجماعت) پڑھ چکے تھے ،دوبارہ اذان واقامت کہلوائی اور نماز پڑھی۔
(مصنف ابن ابی شیبہ 1؍221 ح 2298 والسنن الکبریٰ للبیہقی 1؍407،3؍70 تغلیق التعلیق 2؍676 ،677 وقال: