کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 248
جیسا کہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "أَنَّ بِلالا كَانَ يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ"
’’بے شک رات کی اذان بلال دیتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری:622صحیح مسلم 1092)
جن احادیث میں آیا ہے کہ "الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ" کے الفاظ صبح کی پہلی اذان میں ہیں،ان ان کامطلب یہ ہے کہ طلوع فجر کے بعد صبح کی دو اذانیں(اذان واقامت) میں سے پہلی اذان(یعنی اذانِ عرفی) میں یہ الفاظ کہے جائیں گے نہ کہ اقامت میں۔
رہی رات کی اذان جو صبح سے پہلے دی جاتی ہے تواس میں"الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ" کے الفاظ ثابت نہیں ہیں۔صحیح ابن خزیمہ(ج1 ص 202) سنن الدارقطنی(ج1 س 243) اور السنن الکبریٰ للبیہقی(ج1ص 423)میں صحیح سند کے ساتھ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
" من السنة إِذَا قالَ المُؤَذٍّنُ في أَذَانِ الفَجْرِ: حَيَّ عَلَى الفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الفَلاحِ، فَلْيَقُل: الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ"
’’سنت میں سے یہ ہے کہ جب مؤذن صبح کی اذان میں "حَيَّ عَلَى الفَلاحِ" کہے تو "الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ" کہے۔
صحابی کا من السنۃ کہنا،مرفوع حدیث کہلاتاہے جیسا کہ اصول حدیث میں مقرر ہے۔سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ فجر کی اذان میں "الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ"کہتے تھے۔دیکھئے سنن ابی داود(504 وسندہ صحیح)
خلاصہ یہ کہ طلوع فجر کے بعد صبح کی اذان اول میں "الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ" کے الفاظ کہنے چاہییں ۔طلوع فجر سے پہلے تہجد والی اذان میں یہ الفاظ قطعاً ثابت نہیں ہیں۔
اس سلسلے میں شیخ امین اللہ البشاوری حفظہ اللہ نے لکھاہے:"وان قول الشيخ الالباني حفظه اللّٰه ضعيف في هذه "
اور بے شک اس مسئلے میں شیخ البانی رحمہ اللہ کا قول ضعیف ہے۔(فتاویٰ الدین الخالص ج3 ص 225)
شیخ ثناء اللہ مدنی،شیخ محمد منیر قمر سیالکوٹی اور حافظ عبدالرؤف سندھو حفظہم اللہ نے اس مسئلےمیں(شاید) بغیر تحقیق کے شیخ البانی رحمہ اللہ کی پیروی کی ہے۔واللّٰه اعلم وسبحان من لا یسھو
(شہادت،اکتوبر 2000ء)