کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 247
سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو غزوہ حنین کے بعد اذان سکھائی گئی تھی۔اس کے بعد آپ59 ھ تک موذن رہے۔
(دیکھئے سیر اعلام النبلاء ج3 ص 117،118 وغیرہ)
لیکن اس بارے میں کوئی صراحت نہیں ہے کہ ان کی تمام اذانیں دوہری ہوتی تھیں یا اکہری! دونوں طرح اذان کا ثبوت کتب ِحدیث میں موجود ہے لہذا اس میں شدت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔(شہادت،جولائی 2000ء)
فجر کی دو اذانیں اور مسئلۂ تثویب
سوال: (الف) بعض علماء کے نزدیک فجر کی دو اذانیں ہیں،ایک صبح صادق سے کچھ دیر قبل اور دوسری طلوع صبح صادق پر۔
ب۔پہلی اذان میں تثویب(الصلوٰۃ من النوم) کہاجائے۔
ج۔دونوں کے درمیان وقفہ تھوڑا(تقریباً دس منٹ) ہو۔کیایہ باتیں مسنون وجائز ہیں؟حقیقی مسلک سے آگاہ فرمائیں۔
اس مسلک کے علماء میں:
1۔البانی بحوالہ تمام المنہ تخریج وتعلیق فقہ السنہ اور الارواء(صحیح ابی داود 2؍415ح516)
2۔شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی بحوالہ ہفت روزہ الاعتصام لاہور(مجریہ 98۔8۔14)
3۔مولانا محمد منیر سیالکوٹی بحوالہ فقہ الصلوٰۃ (جلد دوم صفحہ نمبر 152تا156)
4۔حافظ عبدالرؤف سندھو بحوالہ القول المقبول فی تخریج وتعلیق صلوٰۃ الرسول(طبع1997ء) شامل ہیں۔ (محمد صدیق سلفی،ایبٹ آباد)
الجواب: فجر کی دواذانیں ہیں:
ایک طلوع فجر کے بعد اور دوسری اقامتِ صلوٰۃ کے وقت جسے اقامت بھی کہتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ"
ہردو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔(صحیح بخاری:624صحیح مسلم:838)
ایک تیسری اذان ہے جو طلوع فجر سے پہلے دی جاتی ہے،اسے رات کی اذان کہتے ہیں،