کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 246
بلکہ دوہری اذان کہنے والے کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں جبکہ دوسرا فریق کہتا ہے کہ اکہری اذان بھی جائز ہے اور دوہری بھی جائزہے،دونوں کہی جاسکتی ہیں۔دونوں گروپ اپنے موقف میں شدت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ کسی وقت کوئی حادثہ رونما ہوجائے، لہذا براہ مہربانی تفصیل سے اس بارے میں جواب دیں۔
(د) ابو محذورہ رضی اللہ عنہ صحابی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا موذن مقرر کیا تھا جو کہ مسلم شریف کی حدیث میں موجود ہے ،کیا یہ تمام اذانیں دوہری کہتے تھے یاکبھی دوہری اورکبھی اکہری،اورانھیں کب مؤذن مقرر کیاگیا اور کب تک یہ بیت اللہ کے مؤذن رہے،جب تک یہ مؤذن رہے،دوہری اذانیں دیتے رہے یا اکہری یا دونوں طرح؟ براہ مہربانی تفصیل سے اور جلد جواب دیں۔(ایک سائل)
الجواب: دوہری اذان، جس میں: "أَشْهَدُ أَنّ لَّا إِلَٰهَ إِلَّإ اللّٰه وأَشْهَدُ ان محمداً رسول الله" چار دفعہ ہوتا ہے جب کہ اکہری اذان میں دو مرتبہ دونوں طرح جائز ہے۔یہ عمل تمام اذانوں میں بھی جائز ہے تاہم یاد رہے کہ جب دوہری اذان ہوگی تو اقامت بھی دوہری ہوگی اور اگر اکہری اذان ہوگی تو اقامت بھی اکہری ہوگی۔دوہری اذان اکہری اقامت اور اکہری اذان دوہری اقامت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔(دیکھئے ہدیۃ المسلمین ص 20۔21۔دوسرا نسخہ 29۔30)
راقم الحروف کا اس سلسلے میں ایک تحقیقی مضمون’’ الاعتصام لاہور‘‘ میں کافی عرصہ پہلے چھپ چکاہے۔والحمدللہ
اس سلسلے کی احادیث میں کوئی تضاد نہیں ہے،دوہری اذان والی روایت صحیح مسلم (379) وسنن ابی داود(502) وغیرہمامیں موجود ہے۔
تنبیہ: صحیح مسلم کے بعض نسخوں میں کاتب کی غلطی سے دوسری مرتبہ والا’’اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘ رہ گیاہے۔(دیکھئے درسی نسخہ ،ھامش ج1ص 165 والسنن الکبریٰ للبیہقی ج 1ص 392،393)