کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 245
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب التہذیب(3065) میں اسے"ضعیف " ہی لکھا ہے۔
(ب) مسند ابی یعلیٰ(ج12ص 150 ح 6780)عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی(623) شعب الایمان للبیہقی(ج6 ص 390 ح8619) تاریخ ابن عساکر والا مالی لابن بشران(بحوالہ السلسلۃ الضعیفہ للالبانی ج1ص 329،321) وغیرہ کتابوں میں یحییٰ بن العلاء الرازی عن مروان بن سالم عن طلحہ بن عبیداللہ العقیلی عن الحسین (یاالحسن) بن علی کی سند سے مروی ہے کہ جس شخص کابیٹا(یا بیٹی) پیدا ہو،وہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہے تو اسے بچوں کی بیماری نہیں لگے گی۔
یہ سند موضوع ہے ۔یحییٰ بن العلاء کذاب ہے،مروان بن سالم متروک مہتم ہے اور طلحہ بن عبیداللہ العقیلی مجہول ہے، لہذا یہ روایت مردود ہے۔اسےپہلی روایت کا شاہد بنانا غلط ہے۔
(ج) امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان(ج6ص 390۔8620) میں محمد بن یونس(الکدیمی) عن الحسن بن عمرو بن سیف عن القاسم بن مطیب عن منصور بن صفیہ عن ابی معبد عن ابن عباس کی سند سے روایت کیاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی کے دائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی تھی۔
اس کی سند موضوع ہے۔محمد بن یونس الکدیمی مشہور کذاب ہے۔
دیکھئے میزان الاعتدال وغیرہ نیز الحسن بن عمرو بن سیف بھی کذاب ومتروک ہے۔
دوہری اذان کامسئلہ
سوال: اذان کہنے کے بارے میں وضاحت فرمائیں کہ کون سی اذان دوہری اور کون سی اکہری ہویا کہ تمام اذانیں دوہری دینی چاہییں؟
(ب) دوہری اذان کے بارے میں کتب ستہ میں جو مختلف احادیث وارد ہیں،ان میں تضاد ہے ،ان کی وضاحت فرمائیں،ہمارے یہاں اس مسئلہ میں کافی اختلاف ہے ۔ایک گروہ کہتا ہے کہ دوہری اذان جائز نہیں ہے اور وہ مسجد میں دوہری اذان کہنے نہیں دیتے