کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 244
اور اس پر اجماع ہے کہ اذان کہتے وقت قبلہ رخ ہونا چاہیے ۔(الاجماع:ص7،فقرہ:39) نیزدیکھئے موسوعۃ الاجماع فی الفقہ الاسلامی (1؍93)
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا قبلہ رخ ہوکراذان کہنی چاہیے؟توانھوں نے فرمایا:جی ہاں(مصنف عبدالرزاق 1؍465ح1802 وسندہ صحیح)
محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "إذا اذن المؤذن استقبل القبلة"
’’جب مؤذن اذان کہے تو اسے قبلہ رخ ہونا چاہیے۔‘‘(مصنف عبدالرزاق:1؍466 ح1804وسندہ صحیح)
سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کے سامنے مؤذن نے قبلہ رخ ہوکر اذان دی۔
(مسند السراج:61 وسندہ حسن وقال الشیخ ارشاد الحق الاثری:’’ اسنادہ صحیح‘‘)
خلاصہ: اذان میں قبلہ کی طرف رخ کرنا اجماع سے ثابت ہے ،والحمدللہ(الحدیث:4)
نومولود کے کان میں اذان کہنا
سوال: کیا بچے کی پیدائش پردائیں کان میں اذان اور اذان میں الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ پڑھنا اور بائیں کان میں اقامت پڑھنا ثابت ہے؟مسنون طریقہ کیا ہے؟(محمد صدیق سلفی،ایبٹ آباد)
الجواب: الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ کا ثبوت میرے علم میں نہیں ہے ،رہا اذان اور اقامت کا کہنا تو اس کی بنیاد چند ضعیف روایات پر قائم ہے:
(الف) سنن ابی داود(کتاب الادب باب فی المولودفیؤذن فی اذنہ ح 5105) سنن الترمذی(کتاب الاضاحی باب الاذان فی اذن المولود ح1514) مسنداحمد(ج6 ص391) السنن الکبریٰ للبیہقی(ج9 ص 305) مصنف عبدالرزاق(ج4 ص336وغیرہ) میں عاصم بن عبیداللہ عن عبیداللہ بن ابی رافع عن ابی رافع کی سند سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی بن ابی طالب کے کان میں اذانِ نماز دی تھی۔جب وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔اسے امام ترمذی نے حسن صحیح کہا لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔اس کا راوی عاصم بن عبیداللہ جمہورمحدثین کے نزدیک حافظے کی خرابی کی وجہ سے ضعیف ہے۔