کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 239
گاؤں کے صحیح العقیدہ لوگ بالاتفاق اسے عید گاہ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ کی تحقیق میں ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔انھوں نے کہا:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے راستہ تنگ ہونے کی وجہ سے مسجد کا کچھ حصہ راستہ میں ملا کر اس کو فراخ کردیا۔ملاحظہ ہو فتاویٰ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (فتاویٰ اہل حدیث ج1ص 349)
اس سلسلے میں انھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے عمل سے بھی استدلال کیا ہے کہ انھوں نے جامع مسجد،کھجوروں کے تاجروں سے بدل کر دوسری جگہ لے گئے اور وہاں بازار بن گیا۔(ایضاً)
اس کے برعکس بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ جہاں مسجد بن جائے اسے قیامت تک تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔واللہ اعلم۔(شہادت،جولائی 1999ء)
مسجد کے فنڈ کو ذاتی استعمال میں لانا کیسا ہے؟
سوال: زید مسجد کا خزانچی ہے، وہ مسجد کے فنڈ کو ذاتی استعمال میں لاتا ہے جب مسجد کو ضرورت پڑتی ہے تو وہ فنڈ دے دیتاہے کیا ایساکرنا قرآن وسنت کی رو سے جائز ہے؟( حبیب اللہ ،سیالکوٹ)
الجواب: آپ کے سوال کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص مثلاً زید مسجد کا خزانچی ہے۔اس کے پاس فنڈ میں سو سو کے دس نوٹ یعنی ایک ہزار رو پیہ امانت موجود ہے۔ وہ ان جمع شدہ نوٹوں کو اپنے کاروبار میں خرچ کردیتا ہے،جب مسجد کے لیے ضرورت پڑتی ہے تو وہ اسی طرح کے دوسرے دس نوٹ یا پانچ سو کے دو نوٹ وغیرہ دے کر ایک ہزار روپیہ پورا کردیتا ہے۔میرے خیال میں اگر مسجد کمیٹی اور چندہ دہندگان کو کوئی اعتراض نہیں تو ایسا کرناجائزہے۔اس لیے کہ نوٹ بدلنے سے مالیت میں کوئی فرق نہیں آتا۔واللہ اعلم۔(شہادت،جولائی 1999ء)