کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 238
درمیان (مدینہ والوں کا) قبلہ ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2؍362 ح7430 وسندہ صحیح) سیدناابن عمر رضی اللہ عنہ نےفرمایا:"مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ" (ابن ابی شیبہ 2؍362 ح7432 وسندہ صحیح) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:"ما بين المشرق والمغرب قبلة إذا تُوُجِّه قِبَلَ البيت" ’’جب تم بیت اللہ کی طرف رُخ کرلوتو مشرق اور مغرب کے درمیان قبلہ ہے۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی 2؍9 وسندہ حسن نافع بن ابی نعیم حسن الحدیث وثقہ الجمہور واخطا ابن الترکمانی فتکلم فیہ بجروح مرجوحۃ) خلاصۃ التحقیق: نمازوں میں حتی الوسع کعبہ(بیت اللہ) مکہ کی طرف ہی رُخ کرنا چاہیے۔جان بوجھ کر مکہ(بیت اللہ) کے علاوہ کسی دوسری طرف رُخ کرکے فرض نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔اگرسمت قبلہ میں اجتہادی غلطی ہوجائے تو معاف ہے۔ سائل کے سوال کا مختصر الجواب: بشرطِ صحتِ سوال عرض ہے کہ جن لوگوں نے بغیر کسی واضح دلیل کے مسجد کا رخ قبلے کی طرف سے ہٹا کر مغرب کی طرف سیدھا کردیا ہے،اُن کا یہ عمل غلط ہے اور اس سے بڑا فرق پڑتا ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس طرح کی حرکت سے لوگ بجائے مکہ کے قبلہ اول کی طرف نماز پڑھ رہے ہوں۔کوئی شخص کسی کی نمازوں کا کبھی ذمہ دار نہیں ہوتا لہذا متولی کا قول باطل ہے۔وماعلینا الاالبلاغ (3؍اگست 2007ء) (الحدیث:41) مسجد کو کسی دوسری ہیٔت(حالت) میں بدلنا؟ سوال: ہمارے گاؤں کے ساتھ ایک اور گاؤں ہے۔اس گاؤں کے باہر ایک مسجد تھی لیکن اب گاؤں والوں نے گاؤں کے اندر ہی نئی مسجد بنالی ہے۔پوچھنا یہ ہے کہ کیا اب ہم اس پہلی مسجد کو جو بالکل بند پڑی ہے اسے سکول بناسکتے ہیں یا مسجد کی عمارت شہید کرکے اسے عید گاہ بنا سکتے ہیں؟کیونکہ مسجد بالکل بند ہے۔قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیں۔(ایک سائل) الجواب: بہتر یہ ہے کہ مسجد کو تبدیل نہ کیا جائے بلکہ اسے آباد کیاجائے۔اگر اس