کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 237
پھیرو۔‘‘ (سورۃ البقرۃ:144) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسئ الصلاۃ کو حکم دیا: "إذا قُمْتَ إلَى الصَّلاةِ فَأَسْبغِ الوُضُوءَ، ثم أسْتَقْبِلِ القِبْلَةَ، فَكَبِّرْ" ’’جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو پورا وضو کرو پھر قبلہ رُخ ہوکرتکبیر(اللہ اکبر) کہو۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الاستئذان باب من ردفقال :علیک السلام ح6251 صحیح مسلم،کتاب الصلوٰۃ باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ ح 46؍397 وتر قیم دارالسلام :886) ان دلائل اور دیگر دلائل سے ثابت ہے کہ نمازی کو حالت نماز میں بیت اللہ کی طرف رُخ کرنا چاہیے اور اسی پر اُمت کا اجماع ہے۔ جب مسلمانوں کو نماز میں قبلہ رُخ کرنے کاحکم دیاگیا تو سب کعبہ کی طرف پھر گئے۔ دیکھئے صحیح بخاری(ح403) وصحیح مسلم(ح 526 وترقیم دارالسلام: 1178) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے مکہ کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھی۔(دیکھئے صحیح بخاری :40) معلوم ہوا کہ مکہ سے باہر اور دُور والوں کے لیے یہ حکم ہے کہ مکہ کی طرف رُخ کرکے فرض نمازیں پڑھیں۔نوافل کے لیے سواری کی حالت میں دوسرا حکم ہے جس کا ہمارے موضوع سے فی الحال کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر1: بیت اللہ کے پاس بیت اللہ کی طرف رُخ کرکے اور مکہ سے باہرمکہ کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنا فرض ہے۔ مسئلہ نمبر2: جان بوجھ کر ،علم ہوجانے کے باوجود بیت اللہ سے ہٹ کرکسی دوسری طرف رُخ کرکے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر3: اپنی پوری کوشش کے باوجود اگر سمت قبلہ میں کوئی غلطی ہوجائے تو معاف ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: "مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ" مشرق اور مغرب کے درمیان جو ہے وہ(مدینہ والوں کے لیے) قبلہ ہے۔ (سنن الترمذی :344 وقال:"ھذا حدیث حسن صحیح"وسندہ حسن) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:"مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ" مشرق اور مغرب کے