کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 228
" إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ فِي بَطْنِهِ شَيْئًا فَأَشْكَلَ عَلَيْهِ أَخَرَجَ مِنْهُ شَيْءٌ أَمْ لا فَلا يَخْرُجَنَّ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا"
’’اگر تم میں سے(مرض وہم والا) کوئی شخص اپنے پیٹ میں کوئی گڑ بڑ محسوس کرے اور اسے شک ہو کہ ہوا نکلی ہے یا نہیں نکلی؟تو اس وقت مسجد سے نہ نکلے جب تک(ہوا نکلنے کی) آواز سنے یا بدبوسونگھ لے۔‘‘(صحیح مسلم :99؍326 دارالسلام :805)
یہ روایت اس شکی وہمی مریض کے بارے میں ہے جسے وہم رہتا ہے کہ اس کی ہوا خارج ہوئی ہے یا نہیں،ظاہر ہے کہ شک کی بنیاد پر نماز توڑدینا صحیح نہیں ہے،رہا وہ شخص جسے یقین ہوجائے کہ اس کی ہوا نکلی ہے تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے چاہے وہ آواز سنے یا نہ سنے،چاہے وہ بدبومحسوس کرے یا نہ کرے۔
2۔عبادہ بن تمیم کے چچا(عبداللہ زید المازنی رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لَا يَنْصَرِفْ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا"
’’یعنی(وہم اور شک کا مریض شخص) اس وقت تک نماز سے نہ نکلے جب تک وہ آواز سن لے یا بدبومحسوس کرلے۔‘‘(صحیح البخاری:177 وصحیح مسلم :98؍361 دارالسلام :804)
3۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لَا يَقْبَلُ اللّٰه صَلَاةَ أَحَدِكُمْ إِذَا أَحْدَثَ حتى يتوضأ"
جس کو حدث ہوجائے(یعنی وضو ٹوٹ جائے تو)اس کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک وہ(دوبارہ) وضو نہ کرلے (یعنی دوبارہ وضو کے بعد ہی نماز قبول ہوگی)۔ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ حدث سے کیا مراد ہے؟توانھوں نے فرمایا:فساء(پھسکی) یاآواز کے ساتھ ہوا کا نکلنا۔(صحیح بخاری :135)
ان احادیث سے معلوم ہواکہ انسان کی ہوا نکلنے سے اس کا وضو فوراً ٹوٹ جاتاہے چاہے یہ ہواآواز سے نکلے یا بے آواز نکلے۔چاہے بدبوآئے یا نہ آئے ،چاہے معمولی پھسکی ہویا بڑاپاد،چاہے دبر سے نکلے یا قبل سے،ان سب حالتوں میں یقیناً وضو ٹوٹ جاتا ہے اور یہی اہل حدیث کامسلک ہے۔