کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 222
نہیں ہے ۔‘‘ (الاوسط لابن المنذر 1؍464 ،465) تقریباً یہی بات ابن حزم نے کہی ہے۔(المحلی 2؍86 مسئلہ نمبر 212) ابن قدامہ کا قول سابقہ صفحے پر گزر چکا ہے۔ معلوم ہوا کہ جرابوں پر مسح کے جائز ہونے کے بارے میں صحابہ کااجماع ہے۔ رضی اللہ عنہم اوراجماع(بذات خود مستقل)شرعی حجت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ میری امت کوگمراہی پر کبھی جمع نہیں کرے گا۔‘‘ (المستدرک للحاکم 1؍116 ح 397 ،398) نیز دیکھئے: "ابراء اهل الحديث والقرآن مما في الشواهد من التهمة والبهتان" ص 32 ،تصنیف حافظ عبداللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ (متوفی 1337ھ) مزید معلومات: 1۔ابراہیم النخعی رحمہ اللہ جرابوں پر مسح کرتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ 1؍188 ح1977) اس کی سند صحیح ہے۔ 2۔سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے جرابوں پر مسح کیا۔(ایضاً 1؍189ح1989)اس کی سند صحیح ہے۔ 3۔عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ جرابوں پر مسح کے قائل تھے۔(المحلیٰ 2؍86) معلوم ہوا کہ تابعین رحمہ اللہ کا بھی جرابوں پر مسح کے جواز پر اجماع ہے۔والحمدللہ 1۔بقول حنفیہ محمد بن الحسن الشیبانی بھی جرابوں پر مسح کا قائل تھا۔(ایضاً 1؍61 باب المسح علی الخفین) 3۔آگے آرہاہے کہ(بقول حنفیہ) امام ابوحنیفہ پہلے جرابوں پرمسح کے قائل نہیں تھے لیکن بعد میں انھوں نے رجوع کرلیا تھا۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:سفیان الثوری ،ابن المبارک ،شافعی ،احمد اور اسحاق(بن راہویہ) جرابوں پر مسح کے قائل تھے(بشرطیکہ وہ موٹی ہوں)۔ دیکھئے سنن الترمذی(ج99)