کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 216
الجواب: مسعود احمد بی ایس سی صاحب نے،وضو کے بعد شرمگاہ پر پانی چھڑکنے والی روایت بلوغ الامانی ج2 ص 53 سے نقل کی ہے۔یہ روایت مسند احمد(ج4 ص 161) مسند عبدبن حمید(ح 283) اور سنن ابن ماجہ(ح462) میں بھی اسی سند سے موجود ہے۔یہ سند کئی وجہ سے ضعیف ہے:
1۔ابن لہیعہ اختلاط کی وجہ سے ضعیف تھے اور اس روایت کا قبل از اختلاط ہونا معلوم نہیں۔
2۔ابن لہیعہ مدلس تھے۔وہ ضعیف راویوں سے تدلیس کرتے تھے۔(طبقات المدلسین لابن حجر) اور عن سے روایت کررہے ہیں۔ایسے راوی کی"عن"والی روایت قطعاً مردود ہوتی ہے۔
حافظ بوصیری نے لکھا ہے کہ:
"وهذا إسناد ضعيف ؛ لضعف ابن لهيعة" ’’یہ سند ابن لہیعہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔‘‘ (زوائد ابن ماجہ ص 97 ح165 ،دوسرا نسخہ ح462)
3۔امام زہری ثقہ مدلس تھے(بشرط صحت) اور عن سے روایت کررہے ہیں۔
تاہم سنن ابی داود کتاب الطھارۃ باب فی الانتضاح(ص166۔168) وغیرہ میں حسن سند سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور شرمگاہ پر پانی چھڑکا۔اسے حاکم اور ذہبی نے بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح کہاہے۔(المستدرک ج1ص 171)
اس روایت کی وجہ سے پہلی روایت بھی حسن ہوگئی ہے۔الحمدللہ
ایک آدمی نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے شکایت کی کہ جب میں نماز میں ہوتا ہوں تو مجھے یہ خیال آتاہے کہ میرے ذکر پر پیشاب کی تری ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نےفرمایا:اللہ تعالیٰ غارت کرے شیطان کو ،شیطان نماز میں آکر انسان کے ذکر کو اس لیے چھوتا ہے تاکہ وہ خیال کرنے لگے کہ اس کا وضو ٹوٹ چکاہے۔پس اگر تو وضو کرے تو اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑک لیاکر۔اگر تجھے اپنی تری کا خیال آئےگا تو یہ سمجھ لے کہ یہ چھڑکا ہوا پانی ہے۔(مصنف عبدالرزاق ج1ص151ح 583)
نافع مولیٰ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جب وضو کرتے تو