کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 209
8۔غلام رسول سعیدی بریلوی لکھتے ہیں:’’اس حدیث پر منکرین حدیث اعتراض کرتے ہیں کہ ان احادیث کو ماننے سے لازم آتا ہے کہ اجنبی مرد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کرتے تھے اور وہ ان کو غسل کرکے دکھا دیتی تھیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مرد اجنبی نہ تھے۔ان میں سے ابو سلمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھتیجے تھے اور دوسرے عبداللہ بن یزید آپ کے رضائی بھائی تھے۔غرض دونوں محرم تھے،آپ نے حجاب کی اوٹ میں غسل کیا اور ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ازواج مطہرات کپڑوں کے ساتھ غسل کرتی تھیں اور اس سے آپ کا مقصد یہ تھاکہ ان کو شرح صدر ہوجائے کہ اتنی مقدار پانی غسل کے لیے کافی ہوتا ہے ۔علامہ بدرالدین عینی لکھتے ہیں:قاضی عیاض نے کہا:اس حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ ان دونوں نے سر اور جسم کے اس بالائی حصہ میں غسل کا عمل دیکھا جس کو دیکھنا محرم کے لیے جائز ہے اور اگر انھوں نے اس عمل کامشاہدہ نہ کیا ہوتا توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پانی منگانے اور ان کی موجودگی میں غسل کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ستر کاانتظام ،سر اور چہرے کے نچلے حصے کے لیے کیاتھا جس کو دیکھنا محرم کے لیے جائز نہیں ہے۔‘‘ (شرح صحیح مسلم ج1ص 1019،1029)
خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں صرف یہ مسئلہ بیان ہوا ہے کہ غسل میں،سر کے بال کھولے بغیر ہی سر پر تین دفعہ پانی ڈالنا چاہیے،اس حدیث کا باقی جسم کے غسل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔وما علینا الا البلاغ (الحدیث:2)
غسل جنابت میں سر کا مسح
سوال: غسل کے وضو میں سر کے مسح کا کیا حکم ہے؟(حکیم ابو عامر ایم اے لاہور)
الجواب: بہتر یہی ہے کہ غسل سے پہلے وضو میں سر کا مسح نہ کیا جائے۔سنن النسائی میں ایک روایت ہے کہ "حَتَّى إِذَا بَلَغَ رَأْسَهُ لَمْ يَمْسَحْ" حتیٰ کہ جب آپ سر تک پہنچے تو سر کامسح نہ کیا۔
(باب ترک مسح الراس فی الوضوء من الجنابۃ ج1 ص 205،206ح422 وھو صحیح غریب)