کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 208
دکھایا تھا،باقی جسم دھو کر نہیں دکھایا تھا۔
4۔صحیح مسلم والی روایت میں آیا ہے: "فأفرغت على رأسها ثلاثاً"
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ا پنے سر پر تین دفعہ(بال کھولے بغیر ہی) پانی بہایا تھا۔(42؍320) باقی جسم کے غسل کا کوئی ذکر اس روایت میں نہیں ہے۔
5۔صحیح بخاری(251) اور صحیح مسلم(320) میں آیا ہے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور شاگردوں کے درمیان(موٹا) پردہ(حجاب ،ستر) تھا۔ایک صحیح حدیث میں آیاہے کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کررہے تھے، "وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ بِثَوْبٍ " اور آپ کی بیٹی فاطمہ نے ایک کپڑے کے ذریعے سے آپ کے لیے پردہ کررکھا تھا۔
(موطا امام مالک 1؍152 ح356 بتحقیقی وصحیح البخاری :357 صحیح مسلم:82؍236 بعد ح719)
یہ ظاہر ہے کہ پردے کے پیچھے نظر آنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا،ورنہ پھر پردے کا کیا مقصد ہے؟
6۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھائی عبداللہ بن یزید البصری تھے۔(ارشاد الساری للقسطلانی ج1،ص 317)
یاکثیر بن عبیدالکوفی تھے۔(فتح الباری 1؍365)
ابو سلمہ بن عبدالرحمان بن عوف،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھانجے تھے۔
(فتح الباری 1؍365)
معلوم ہوا کہ یہ دونوں شاگرد ،غیر مرد نہیں بلکہ محرم تھے، اسلام میں محرم سے سر،چہرے اور ہاتھوں کاکوئی پردہ نہیں ہے۔
7۔عبدالرحمان دیوبندی لکھتے ہیں :’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہونے والے یہ دونوں محرم تھے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کے سامنے پردہ ڈال کر غسل کیا اور دونوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سر اور اوپر کا بدن دیکھا جو محرم کو دیکھنا درست ہے لیکن جسم کے باقی اعضاء جن کا مستور رکھنا محرم سے بھی ضروری ہے وہ پردہ میں تھے۔‘‘
(فضل الباری ج2ص 428 از افادات شبیر احمد عثمانی دیوبندی)